بلوچستان میں ریاستی جبر نے مقامی لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔ ‏بلوچ یکجہتی کمیٹی

 


کوئٹہ ( پریس ریلیز )

‏ریاستی فوج مسلسل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہی ہے، جبکہ برائے نام سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی خاموشی اس جبر کو مزید تقویت دے رہی ہے۔

‏ریاست نے بلوچستان میں ڈیٹا نیٹ ورک معطل کر کے اور عام آبادی کو دھمکا کر اپنے جرائم چھپانے کی کوشش کررہی ہے، مگر یہ حقیقت واضح ہے کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں عوام باشعور ہو چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ فورسز جن مظالم پر پردہ ڈالنا چاہتی ہیں، انہیں دنیا کے سامنے لانا ہی مزاحمت کا بنیادی حصہ ہے۔

‏چند روز قبل حب سے خضدار جانے والی ایک ویگن کو مسافروں سمیت جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ اس واقعے کے خلاف متاثرہ خاندانوں نے تین روز تک شاہراہ بلاک کر کے دھرنا دیا۔ اس دوران تین مرتبہ کریک ڈاؤن اور فائرنگ کے واقعات پیش آئے، لیکن لواحقین نے ہار ماننے سے انکار کیا۔ بالآخر انتظامیہ نے جبری گمشدہ افراد کی رہائی کی یقین دہانی کرائی اور مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔

‏اسی طرح آج مستونگ کے علاقے اسپلنجی مرو میں ایک ویگن کو اس کے ڈرائیور سمیت ایف سی اہلکاروں نے اغوا کر لیا، جس کے خلاف مرو کراس پر خواتین کا دھرنا جاری ہے۔ مقامی رہائشیوں کے مطابق گزشتہ تین ہفتوں سے علاقے میں قائم ایف سی چیک پوسٹ پر روزانہ لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فوجی اہلکار گزرنے والی گاڑیوں میں زبردستی سامان یا افراد کو بٹھاتے ہیں اور انکار پر ڈرائیوروں کو جبری لاپتہ کر کے کئی دنوں تک اذیت دی جاتی ہے۔ گاڑیوں کے ٹائر پھاڑ دیے جاتے ہیں، خواتین کو گاڑیوں سے اتارا جاتا ہے اور ڈرائیوروں کو دھمکایا جاتا ہے کہ اگر حکم نہ مانا تو خواتین کو وہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ اس صورتحال نے مقامی مکینوں کو شدید اذیت اور عدم تحفظ میں مبتلا کر دیا ہے۔

‏گزشتہ ہفتے ایف سی اہلکاروں نے مقامی آبادی کو حکم دیا کہ وہ علاقہ خالی کر دیں اور جتنا سامان اٹھا سکتے ہیں ساتھ لے جائیں، کیونکہ آئندہ چند ہفتوں میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کیا جائے گا، جس کے نقصانات کی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی جائے گی۔ یاد رہے کہ چند ماہ قبل قلات کے علاقے شیخڑی میں بھی لوگوں کو زبردستی بے دخل کر کے گھروں، باغات اور فصلوں کو تباہ کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کے دوران نہ صرف عام شہریوں پر فائرنگ کی گئی بلکہ مکانات گرائے گئے، زرعی زمینیں اجاڑ دی گئیں اور ٹیوب ویلز و سولر سسٹمز کو نقصان پہنچایا گیا۔

‏تاحال مرو کراس پر ایف سی اہلکاروں کے ہاتھوں جبری لاپتہ کیے گئے ویگن ڈرائیور کی بازیابی کے لیے دھرنا جاری ہے۔ تاہم، نیٹ ورک کی بندش کے باعث خدشہ ہے کہ کسی بھی وقت اس دھرنے پر کریک ڈاؤن کیا جا سکتا ہے۔

‏ہم انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ حکومتِ پاکستان کو ان سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں پر جواب دہ ٹھہرائیں اور اسپلنجی مرو کے متاثرہ عوام کو فوری انصاف دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post