افغانستان پاکستان کی فضائی حملوں پر شدید ردعمل، سفیر دفتر خارجہ طلب



کابل ( مانیٹرنگ ڈیسک ) افغانستان کے عبوری حکومت نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ شب پاکستان کی جانب سے افغانستان کے مشرقی صوبوں خوست اور ننگرہار میں ڈرون حملے کیے گئے، جن میں عام شہری نشانہ بنے۔

واقعے کے بعد افغان وزارتِ خارجہ نے کابل میں تعینات پاکستانی سفیر کو طلب کر کے سخت احتجاج ریکارڈ کرایا ہے اور ان حملوں کو افغان خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

خوست کے گورنر کے ترجمان مستغفر لابریز نے تصدیق کی ہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی رات تقریباً ساڑھے دس بجے پاکستانی ڈرون نے اسپیرہ ضلع کے سورکاخ علاقے میں ایک عام شہری حاجی نعیم گل کے گھر پر بمباری کی۔

ترجمان کے مطابق اس حملے میں خاندان کے تین بچے جانبحق اور پانچ افراد زخمی ہوئے جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔

ترجمان نے واضح کیا کہ متاثرہ خاندان کسی بھی قسم کی مسلح تنظیم سے وابستہ نہیں تھا اور حاجی نعیم گل مقامی سطح پر کاروبار کرنے والا ایک عام تاجر تھا۔

اسی رات ننگرہار صوبے کے ضلع شینواری میں بھی دو الگ الگ ڈرون حملے کیے گئے جن میں ایک ہی خاندان کے چار بچے اور ایک خاتون زخمی ہوئی، ننگرہار گورنر کے دفتر نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ متاثرہ خاندان کا کوئی عسکری یا جنگجو تعلق نہیں تھا اور مکمل طور پر عام شہری تھے۔

افغان وزارتِ خارجہ نے واقعے کے بعد ایک باضابطہ بیان جاری کیا جس میں پاکستان کے ان حملوں کو افغانستان کی فضائی حدود کی واضح اور ناقابل قبول خلاف ورزی قرار دیا گیا۔

وزارت نے مزید کہا کہ یہ حملے نہ صرف افغانستان کی خودمختاری کے خلاف ہیں بلکہ خطے میں کشیدگی کو بڑھانے والا ایک اشتعال انگیز اقدام بھی ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت اپنے شہریوں کی جان و مال اور قومی خودمختاری کے تحفظ کو ہر قیمت پر یقینی بنائے گی اس قسم کی جارحانہ کارروائیاں ناقابل قبول ہیں اور ان کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

گذشتہ رات ڈرون حملوں پر افغان حکام نے پاکستانی سفیر کو طلب کر کے باضابطہ احتجاجی مراسلہ بھی حوالہ کیا جس میں پاکستان سے فوری وضاحت اور مستقبل میں اس قسم کی کارروائیوں سے گریز کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

ابھی تک پاکستان کی جانب سے اس واقعے پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، نہ ہی کسی پاکستانی عسکری یا سفارتی ادارے نے ان حملوں کی تصدیق یا تردید کی ہے۔

اسی طرح طالبان کی مرکزی قیادت نے بھی اب تک اس واقعے پر عوامی سطح پر کوئی باضابطہ ردعمل جاری نہیں کیا، تاہم مقامی سطح پر طالبان حکام نے ان حملوں پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post