سرمچاروں اور قابض فوج کی تشکیل کردہ نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے درمیان شدید جھڑپ میں سرمچار حاصل مراد عرف ساربان بلوچ جامِ شہادت نوش کر گئے۔براس

 


آواران( بلوچستان ٹوڈے )بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کے ترجمان بلوچ خان نے جاری بیان میں کہاہے کہ
11 اگست کو جھاؤ کے علاقے گجرو کور میں تنظیمی مشن کے دوران سرمچاروں اور قابض فوج کی تشکیل کردہ نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی۔ اس معرکے میں سرمچار حاصل مراد عرف ساربان بلوچ جامِ شہادت نوش کر گئے۔

جھڑپ کے آغاز میں سرمچاروں کا ایک دستہ دشمن کے گھیرے میں آگیا۔ اس دوران زخمی حالت میں بھی سرمچار حاصل مراد نے نہایت جرات و بہادری سے لڑتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو محفوظ طور پر دشمن کے حصار سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی وقت سرمچاروں کا ایک اور دستہ عقب سے ڈیتھ اسکواڈ پر حملہ آور ہوا اور شدید فائرنگ کے ذریعے کور فراہم کرتے ہوئے زخمی سرمچار کو نکال لیا گیا۔ بدقسمتی سے چند گھنٹوں بعد سرمچار حاصل مراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔

انھوں نے کہاہے کہ شہید حاصل مراد ولد مراد بخش، سکنہ چھپبی جھاؤ، نے 2014 میں بلوچستان لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ اس سے قبل وہ سیاسی پلیٹ فارم پر سرگرم رہے اور ایک تعلیم یافتہ، سیاسی و نظریاتی رفیق کے طور پر جانے جاتے تھے۔ تقریباً گیارہ سے بارہ سالہ جدوجہد میں انہوں نے بلوچ قومی تحریک کے لیے گراں قدر قربانیاں دیں۔

شہید حاصل مراد نے بلوچستان کے مختلف علاقوں بشمول جھاؤ، گریشہ، مشکے، آواران، اورناچ اور بیلہ میں قابض کے خلاف اہم معرکوں میں بطور فرنٹ لائن سرمچار حصہ لیا۔ کئی معرکوں میں انہوں نے دلیری اور اعلیٰ جنگی حکمتِ عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشنز کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔

ترجمان نے مزید کہاہے کہ ریاستی جبر کے تحت شہید کے متعدد رشتہ داروں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے خاندان کو اپنے علاقے سے بزور طاقت نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔ شہید حاصل مراد کے والد تاحال پاکستانی فوج کی حراست میں جبری گمشدگی کا شکار ہیں، تاہم سنگت حاصل مراد آخری سانس تک آزاد وطن کے مؤقف پر قائم رہے۔

انھوں نے آخر میں کہاہے کہ ان تمام کارروائیوں کی ذمہ داری بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) قبول کرتی ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ قابض پاکستانی فوج، اس کے خفیہ ادارے، ڈیتھ اسکواڈ اور دیگر معاون ڈھانچے جہاں بھی بلوچ قومی وجود، سرزمین، وسائل اور وقار کے خلاف سرگرم ہوں گے، انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہماری جدوجہد مکمل آزادی اور قومی خودمختاری کے حصول تک جاری رہے گی، اور قابض قوتوں پر حملے نہ صرف جاری رہیں گے بلکہ مزید شدت اختیار کریں گے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post