مستونگ ایف سی کے ہاتھوں بیٹے کا قتل والدین کا انصاف کی عدم فراہمی کے خلاف دھرنا

 



مستونگ ( ویب ڈیسک ) رواں سال جون کے مہینے میں بلوچستان کے ضلع مستونگ میں پاکستانی فورسز کی فائرنگ سے جانبحق ہونے والے نوجوان سید احسان شاہ کی والدہ نے ملزمان کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بطور احتجاج دھرنا دے دیا ہے۔

16 سالہ احسان شاہ 3 جون کو مستونگ کے قریب اس وقت فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بنا جب وہ اپنے دوست کے ہمراہ عید الاضحیٰ سے چند روز قبل کوئٹہ سے واپسی پر تھا۔

احسان شاہ کے والد عارف شاہ کے مطابق وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے عید کی خریداری کرنے گیا تھا، واپسی پر ایف سی اہلکاروں نے ان پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں انکا بیٹا احسان شاہ جانبحق جبکہ اس کا ساتھی شعیب زخمی ہوا۔

احسان شاہ کے والدین نے واقعے کے بعد کوئٹہ اور مستونگ میں متعدد پریس کانفرنسیں کیں اور مقامی انتظامیہ کو فائرنگ کے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے درخواست دی لیکن شنوائی نہ ہوئی۔

بعد ازاں عدالت سے رجوع کیا گیا جس کے حکم پر نامعلوم پاکستانی فورسز اہلکاروں کے خلاف مقدمہ تو درج کر لیا گیا لیکن متاثرہ خاندان کے مطابق اب تک کسی اہلکار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

احسان شاہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ انصاف کی فراہمی کے بجائے انھیں اور ان کے خاندان کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔

قتل ہونے والے نوجوان کے والدہ کے مطابق جب انکے شوہر مقدمہ درج کرنے مستونگ تھانہ گئے تو انہیں دھمکایا گیا کہ اگر ایف آئی آر کی تو تمہیں مزید نقصان دیا جائے گا اور نوکری سے بھی فارغ کر دیا جائے گا، میرے شوہر ایف آئی آر پر بضد رہے تو انہیں کہا گیا کہ ڈی سی سے اجازت نامہ لے آئیں، جب وہ ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے تو ڈی سی کا رویہ بھی ویسا ہی تھا انہیں کہا گیا کہ اگر کوئی ایکشن لیا تو انھیں نوکری سے نکال دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا میرے بیٹے کے قاتلوں کو کٹہرے میں لایا جائے اگر اس نے کچھ کیا بھی ہے تو آ کر ہمیں ثبوت دیں سب کو بتائیں ایف سی نے مارا ہے میرا بیٹا معصوم سولہ سالہ بچہ نویں کلاس کا اسٹوڈنٹ تھا اسے کیوں مارا گیا؟ اس کا گناہ کیا تھا؟ قصور کیا تھا؟ مجھے بتایا جائے میں انصاف کی طلبگار مجبور ماں ہوں مجھے انصاف دیا جائے۔

والدہ نے کہا میرے بیٹے کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک بلوچ طالب علم تھا ہمارے محافظین کے نام پر جو قاتل راستوں میں کھڑے ہیں انہوں نے ایسا کیا دیکھا میرے بیٹے میں؟ آ کر مجھے بتائیں، مجھے پتہ ہے حکومت میں بیٹھے افراد بھی انہی اداروں کی کٹھ پتلی ہیں جو بلوچ نسل کشی میں ملوث ہیں اور یہ اب مجھ مجبور ماں پر بھی الزامات لگانے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post