کوئٹہ ( بلوچستان ٹوڈے) بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ
آج بلوچستان کی تاریخ کی بلند پایہ شخصیت شہید نواب اکبر خان بگٹی کی 19ویں برسی ہے۔ ان کی زندگی اور قربانی بلوچ قوم کے وقار، حقوق اور آزادی کی جدوجہد میں غیر متزلزل جذبے کی علامت ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ نواب بگٹی نے جرات کے ساتھ ظلم کے خلاف کھڑے ہو کر ظلم کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ جب پاکستانی ریاست نے تشدد کو ہوا دی اور بلوچستان کی آواز کو بند کرنے کی کوشش کی تو اس نے مزاحمت کا انتخاب کیا۔ تراتانی کے پہاڑوں میں بہایا جانے والا اس کا خون بلوچوں کی ہر اس نسل کو متاثر کرتا ہے جو ایک آزاد وطن کا خواب دیکھتی ہے۔
چیئرمین نے کہاہے نواب بگٹی نہ صرف قبائلی رہنما تھے بلکہ ایک مدبر، مفکر اور جنگجو بھی تھے جو سمجھتے تھے کہ بلوچ قوم آزادی اور خودمختاری کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ پاکستانی فوجی حکومت کے ہاتھوں ان کے قتل کا مقصد ہمارے عوام کی مرضی کو توڑنا تھا، لیکن اس کے بجائے اس نے مزاحمت کے ایک نئے دور کو بھڑکا دیا۔
انھوں نے بیان کے آخر میں کہاہے کہ ہم شہید نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت پر انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ان کی شہادت اور قربانی حوصلے کی روشنی ہے جو بلوچ آزادی کی تحریک کی رہنمائی کرتی ہے۔
اس طرح بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابق چیئرمین خلیل بلوچ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کے فریم ورک یا ریاستی ڈھانچے میں باوقار مفاہمانہ سیاست کا کوئی گنجائش نہیں کیونکہ پاکستان ایک قابض اور بلوچ مقبوضہ خطہ، پاکستانی کسی بھی سطح کے رہنما کے ساتھ اپنا نوآبادیاتی رویہ تبدیل کرنے سے قاصر ہے کیونکہ دنیا جہاں میں نوآبادیاتی طاقتوں کا نفسیات ایک ہی ہوتا ہے کہ مقبوضہ خطے کے لوگوں کو اس طرح اپنے زیر نگین رکھا جائے کہ وہ کسی بھی بھی سطح پر سر اٹھانے یا اپنے قومی وجود و بقا کے لیے جدوجہد کا قابل ہی نہ رہیں، یہی کچھ پاکستان نے قدآور نواب اکبر خان بگٹی کے ساتھ کیا لیکن جہاندیدہ سیاستدان نواب اکبرخان بگٹی نے ریاست پاکستان کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے بجائے میدان میں جان دینے کو ترجیح دی اور مصالحت پسند رہنماؤں کے لیے ایک بڑی سبق چھوڑ دی اور آج بھی جو بلوچ رہنما کسی بھی سطح پر سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کے اندر باوقار زندگی جی سکتے ہیں ابھی وقت ہے کہ وہ اپنی اصلاح کریں۔
انہوں نے کہا کہ نواب بگٹی نہ صرف ایک قبائل سردار و بڑے سیاسی رہنما تھے بلکہ ایک وسیع المطالعہ دانشور، مدبر اور معاملہ فہم سیاستدان تھے، وہ ایک سیاسی رہنما کے علاوہ ادب، تاریخ اور فلسفے کا ایک حسین امتزاج تھے، تاریخ شناسی کا یہ عالم تھا کہ پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود انہوں نے فوجی یلغار کے آگے سر تسلیم خم نہ کیا اور اپنی قوم کی عزت و وقار کے دفاع میں جامِ شہادت نوش کیا۔ یہ قربانی بلوچ قومی مزاحمت کے لیے نئی توانائی اور استقامت کے بنیادوں میں شامل ہوگئی۔
چئیرمن خلیل بلوچ نے کہا کہ انیسویں برسی پر میں نواب اکبر خان بگٹی کو سرخ سلام پیش کرتا ہوں۔ ان کی قربانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ نوآبادیاتی جبر کے مقابلے میں عزت مند موت غلامی کی زندگی پر فوقیت رکھتی ہے۔ بلوچ قومی تحریک ان کے پیغام اور قربانی کو مشعلِ راہ بنا کر اپنی جدوجہد آزادی کو جاری رکھے گی۔