آزادی اظہار پر قدغن اور سیاسی انتقام ناقابلِ برداشت ہے، عالمی برادری نوٹس لے: بلوچ وائس فار جسٹس

 


کوئٹہ ( پریس ریلیز ) بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل، آغا حسن بلوچ، ثناء بلوچ، شکیلہ نوید دہوار،  وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین قدیر بلوچ، حوران بلوچ اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن اقراء بلوچ سمیت دیگر سیاسی و سماجی رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آرز کا اندراج آزادیِ اظہارِ رائے اور سیاسی سرگرمیوں پر سنگین قدغن اور آمرانہ طرزِ حکمرانی کی علامت ہے۔
سردار اختر مینگل کے خلاف مسلسل تیسری ایف آئی آر کا اندراج اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچستان میں سیاسی عمل کو منظم انداز میں محدود اور مقید کیا جا رہا ہے۔ ریاستی سرپرستی میں قائم کٹھ پتلی حکومت اور ڈیتھ اسکواڈز پر مشتمل انتظامیہ بلوچستان میں بدترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر سیاسی کارکنان کو گزشتہ پانچ ماہ سے غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنا، تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ماورائے عدالت جبری طور پر لاپتہ کرنا، ان پر جھوٹے مقدمات قائم کرنا، دہشت گردی کے الزامات عائد کرنا، اور فورتھ شیڈول میں سیاسی کارکنان، سرکاری ملازمین اور عام شہریوں کو شامل کرکے ان کی نقل و حرکت کو محدود کرنا نوآبادیاتی جبر کی بدترین شکل ہے۔ بلوچستان کو ایک مقبوضہ اور عسکری زون میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جہاں مقامی آبادی کو اپنے ہی علاقوں میں "نو گو ایریاز" کا سامنا ہے۔
سردار اختر مینگل پر عائد کیے گئے الزامات اس حد تک غیر سنجیدہ اور سیاسی انتقام پر مبنی ہیں کہ گویا بلوچستان میں اب سانس لینا بھی جرم بن چکا ہے۔ وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ ایک خفیہ ڈیتھ اسکواڈ کا مرکز بن چکا ہے جہاں شفیق مینگل جیسے افراد ریاستی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کے خلاف CTD اور پولیس کو جھوٹے مقدمات قائم کرنے کے احکامات جاری کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور عالمی برادری کی خاموشی بلوچستان میں توتک جیسے ایک اور انسانی المیے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، جہاں درجنوں جبری لاپتہ نوجوانوں کی لاشیں اجتماعی قبروں سے برآمد ہوئیں۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے کئی علاقوں میں مقامی آبادیوں پر جیٹ طیاروں سے بمباری بھی کی گئی ہے جو بین الاقوامی انسانی حقوق اور جنگی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
بلوچ وائس فار جسٹس، سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں پر جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتی ہے کہ سردار اختر مینگل سمیت تمام سیاسی رہنماؤں کے خلاف قائم تمام جھوٹے مقدمات کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔
بی وائی سی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر سیاسی اسیران کو فی الفور رہا کیا جائے۔
جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، اور فورتھ شیڈول جیسے نوآبادیاتی ہتھکنڈوں کا خاتمہ کیا جائے۔
بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر بین الاقوامی ادارے فوری نوٹس لیں اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔
بلوچستان کے عوام کو ان کے بنیادی انسانی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی حقوق کی فراہمی، سیاسی آزادی  ہی سیاسی و سماجی استحکامِ کی ضمانت ہے۔ جبر و تشدد، جبری گمشدگیاں اور سیاسی انتقام کے ذریعے مسائل کو دبانا نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ اس سے حالات مزید بگڑ سکتے ہیں.

Post a Comment

Previous Post Next Post