میرا پختہ یقین ہے کہ جب بلوچ تحریک کو دنیا بھر میں خاطر خواہ حمایت نہیں مل رہی تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ عالمی ادارے اور طاقتور ملک پاکستان کے بیانیے کو زیادہ قابلِ اعتبار سمجھتے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا بیانیہ یہ ہے کہ بلوچستان کی شورش دراصل بھارت کی پیدا کردہ ہے تاکہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کو کاؤنٹر کیا جا سکے۔
بدقسمتی سے اس بیانیے کو عالمی سطح پر مؤثر طور پر چیلنج نہ کرنے کی بنیادی وجہ ہماری اندرونی نااتفاقی اور ادارہ جاتی کمزوریاں ہیں۔ جہاں دنیا کے فیصلہ ساز حلقوں میں مستقبل کی جیو پالیٹکس، بڑی طاقتوں کے مفادات اور حکمتِ عملی پر سنجیدہ مباحث ہوتے ہیں، وہاں ہماری تحریک اکثر صرف شکایات اور مظلومیت کی داستانوں تک محدود رہ جاتی ہے۔ اس طرزِ عمل سے عالمی سطح پر ہمدردی تو ضرور ملتی ہے، لیکن وہ ٹھوس سیاسی حمایت حاصل نہیں ہو پاتی جو کسی آزادی یا سیاسی جدوجہد کے لیے ناگزیر ہے۔
تحریک میں شامل ایک سیاسی جماعت کے نمائندے باقاعدگی سے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں، مگر یہ شرکت کسی بڑی سفارتی پیش رفت میں تبدیل نہیں ہو سکی۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ تحریک کا مینڈیٹ بکھرا ہوا ہے اور کوئی متفقہ قیادت موجود نہیں جو عالمی سطح پر اسے معتبر اور سنجیدہ بنا سکے۔
اس سے بڑھ کر، تحریک کی سیاسی قیادت اور عسکری تنظیموں کے درمیان تعلقات کسی واضح ادارہ جاتی Hierarchy ڈھانچے پر نہیں بلکہ ایک غیر شفاف اور غیر رسمی انداز پر قائم ہیں۔ مسلح تنطیمیں اپنی مرضی کے مطابق اتحاد یا علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور قانونی فوج کی شکل اختیار کرنے کے بجائے عوامی تاثر کو وقتی طور پر خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس تضاد نے دنیا کے فیصلہ ساز اداروں کو مزید شکوک میں مبتلا کر دیا ہے۔ عالمی فورمز پر نمائندگی کسی اور کے پاس ہو مگر اصل اختیار کسی اور کے ہاتھ میں یہ دنیا کے نزدیک تحریک کو غیر معتبر اور غیر شفاف بناتا ہے۔
مزید یہ کہ کوئی ایسی مشترکہ سیاسی قیادت بھی موجود نہیں جو مسلح مزاحمت کو واضح طور پر own کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونِ ملک سرگرمیاں نمائشی سیاست سے آگے نہیں بڑھ سکیں اور اندرونی اختلافات کو مزید ہوا ملی۔
دنیا کی ریاستیں اور ادارے فیصلے جذباتی نعروں پر نہیں بلکہ اپنے مفادات کے حساب سے کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے مقدمات تب ہی وزن رکھتے ہیں جب ان کے ساتھ ایک ایسی سیاسی قیادت موجود ہو جو توانائی، تجارت، سکیورٹی یا سرمایہ کاری کے معاہدے کرنے کی مجاز ہو۔ جب سیاسی ادارے (principal) اور عسکری یا نیم خودمختار تنظیم (agent) الگ الگ ترجیحات رکھتے ہوں تو تحریک کی ساکھ کمزور ہوتی ہے۔ دنیا ایسے فریق پر سرمایہ نہیں لگاتی جس کے فیصلوں کی ضمانت نہ ہو۔ صرف UNHRC میں بیانات دینا کافی نہیں، بلکہ اُن شعبوں پر کیس مضبوط کرنا ہوگا جن پر عالمی پالیسی بنتی ہے جیسے سرمایہ کاری کے خطرات، سمندری تجارتی راستے، ماحولیاتی اثرات اور معدنیات کی گورننس۔
دنیا صرف کہانی نہیں بلکہ قابلِ تصدیق ڈیٹا مانگتی ہے: معتبر فیکٹ فائنڈنگ، تسلسل کے ساتھ شائع ہونے والی رپورٹس، آزاد ذرائع سے تصدیق، اور قابلِ نفاذ سفارشات۔ عالمی ادارے صرف اُنہی تحریکوں سے تعلق رکھتے ہیں جو پیش گوئی کے قابل ہوں، جن کے پاس واضح چارٹر ہو، داخلی احتساب کا نظام ہو، تنازع حل کرنے کے میکنزم ہوں اور پالیسی میں تسلسل ہو۔ یہاں جذباتی شدت اعتماد کی جگہ نہیں لے سکتی۔
آگے بڑھنے کے لیے تحریک کو اپنی حکمتِ عملی ازسرِ نو ترتیب دینا ہوگی۔ ادارہ جاتی شفافیت، ایک متفقہ آئینی چارٹر، واضح فیصلہ سازی کا ادارہ یعنی نمائندہ قومی کونسل اور سیاسی و عسکری ڈھانچوں کے درمیان واضح لکیر کھینچنا ہوگی تاکہ نمائندگی اور اختیار ایک ہی سمت میں ہوں۔
صرف اقوامِ متحدہ پر انحصار کرنے کے بجائے تجارتی فورمز، سرمایہ کاری کانفرنسوں، تھنک ٹینکس، تعلیمی اداروں اور پارلیمانی گروپس تک رسائی بڑھانی ہوگی۔ مطالبات نعرہ بازی سے ہٹ کر ایسے ہونے چاہئیں جو دنیا کے لیے عملی طور پر قابلِ عمل ہوں جیسے جبری گمشدگیوں پر آزادانہ تفتیش، قیدیوں کو قانونی رسائی، اور ماحولیاتی نقصان پر شفاف تحقیقات۔
بھارت، چین اور خلیجی ممالک کو قائل کرنا ہوگا کہ ایک متحدہ اور آزاد بلوچستان خطے میں امن اور تجارت کا شراکت دار ثابت ہو سکتا ہے۔ دنیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم جمہوری بنیادوں پر منظم ہیں، اختلاف کو دبانے کے بجائے ادارہ جاتی اصولوں کے ذریعے حل کرتے ہیں، اور اپنے فیصلوں پر یکجہتی سے کاربند ہیں۔ یہی طرزِ عمل تحریک کو عالمی سطح پر معتبر بنائے گا۔
آخرکار دنیا جذباتی نعروں پر نہیں بلکہ قابلِ نفاذ وعدوں، شفاف اداروں اور پالیسی کے تسلسل پر یقین رکھتی ہے۔ اگر بلوچ تحریک ادارہ جاتی شفافیت، متحدہ مینڈیٹ اور مفاد پر مبنی سفارت کاری کے ساتھ آگے بڑھے گی تو پاکستانی بیانیے کو مؤثر انداز میں چیلنج کرنا ممکن ہوگا۔ بصورتِ دیگر، لاکھوں کوششوں کے باوجود یہ تحریک دنیا کی نظر میں ایک غیر یقینی اور تقسیم شدہ قوت ہی سمجھی جاتی رہے گی۔
(بشکریہ ہمگام نیوز )