کوئٹہ ( نامہ نگار ) جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے عالمی دن کی مناسبت سے
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ اور لاپتہ افراد کے لواحقین نے وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے جس نے ہزاروں خاندانوں کو شدید اذیت اور کرب میں مبتلا کردیا ہے۔
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ جبری گمشدگیوں سے مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ متاثرین کے مطابق رواں سال اس عمل میں مزید تیزی لائی گئی اور سیکڑوں نوجوان اور بزرگ لاپتہ کیے گئے۔ بعض کیسز میں خواتین کو بھی گھروں سے اُٹھایا گیا اور چادر و چار دیواری کے تقدس کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں۔
نصراللہ بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کو نہ تو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی اطلاع دی جاتی ہے، جس سے پورے خاندان اذیت کا شکار ہیں۔ ایک متاثرہ خاتون نے کہا کہ "کاش ہمارے پیارے فوت ہوتے تو کم از کم ہم ان کی تدفین کر پاتے، مگر آج ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔
نصراللہ بلوچ نے اپنے چچا علی اصغر بنگلزئی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ عدالت نے بار بار ان کی بازیابی کے احکامات دیے مگر کوئی عملدرآمد نہ ہوا۔ نصراللہ بلوچ کے مطابق ایسے رویے نے عدالتی احکامات کو بے وقعت بنا دیا ہے۔
نصراللہ بلوچ نے کہا کہ مختلف حکومتوں نے ایسے آرڈیننس نافذ کیے جن کے ذریعے اداروں کو غیر محدود اختیارات دیے گئے، جن میں ادارے کسی بھی شخص کو صرف شق کی بنا کر بغیر وارنٹ گرفتار کرکے تین سے نو ماہ اپنے حراست میں حراست میں رکھ سکتے ہیں، حتیٰ کہ دوران حراست کسی کو قتل کرنے پر بھی کوئی جواب دہی نہیں ہوتی۔
نصراللہ بلوچ نے کہا کہ جبری لاپتہ کرنا صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ آئینِ پاکستان، بنیادی شہری آزادیوں اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی بھی کھلی توہین ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 9 ہر شہری کو "زندگی اور آزادی" کا تحفظ دیتا ہے۔ اسی طرح آرٹیکل 10 کے تحت کسی بھی شخص کو حراست میں لیے جانے پر اُس کے قانونی حقوق کی پاسداری لازم ہے، جس میں گرفتاری کی وجوہات سے آگاہ کرنا، جلد از جلد عدالت میں پیش کرنا اور وکیل تک رسائی جیسے بنیادی حقوق شامل ہیں۔ کسی شہری کو بغیر اطلاع، عدالتی اجازت یا قانونی جواز کے لاپتہ کرنا نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ فوجداری قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔
پاکستان ایک جمہوری ریاست کہلاتا ہے تو انسانی حقوق کے احترام کی پابند ہونا چاہیئے۔ جبری گمشدگیاں نہ صرف شہریوں کے بنیادی اعتماد کو مجروح کرتی ہیں بلکہ ریاست کے نظامِ انصاف اور آئینی اداروں پر سوالیہ نشان بھی کھڑا کرتی ہیں ۔
نصراللہ بلوچ نے مطالبہ کیا کہ تمام لاپتہ افراد کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے۔ لاپتہ بلوچوں کی ماورائے قانوں قتل کرنے کے سلسلے کا فوری خاتمہ کیا جائے
جن پر الزام ہے انہیں منظر عام پر لایا جائے، اور عدالت میں پیش کرکے قانونی کارہ جوئی کا حق دیا جائے
جو لاپتہ افراد اس دنیا میں نہیں ہے انکے لواحقین کو معلومات فراہم کیا جائے
اس غیر قانونی اقدام میں ملوث عناصر کے خلاف شفاف اور قانونی کارروائی کی جائے۔
جبری گمشدگیوں کا مستقل سدباب کیا جائے اور ان کے خلاف انسانی اقدار کے عین مطابق جامع قانون سازی کو یقینی بنایا جائے۔
پریس کانفرنس میں لاپتہ نوجوان محمود علی لانگو، نعمت اللہ، عبد الفتح، صدام حسین کرد، غلام فاروق سرپرہ اور جہانزیب محمد حسنی کے اہل خانہ نے بھی شرکت کی اور اپنے پیاروں کی جدائی کی کرب و اذیت بیان کی، اور انصاف کا مطالبہ کیا
لواحقین نے کہا کہ وہ اپنے پیاروں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے اور انصاف کے حصول تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔