کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) کراچی سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین کا احتجاج 23 ویں روز بھی جاری رہا۔ مظاہرین نے اپنے پیاروں کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو گھروں سے جبری طور پر اٹھایا گیا اور آج تک ان کا کوئی سراغ نہیں ملا، جو آئین و قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
پریس کلب کے باہر لگائے گئے احتجاجی کیمپ میں شریک لواحقین نے حکومت کے خلاف سخت نعرے بازی کی اور اعلان کیا کہ جب تک ان کے بیٹے بازیاب نہیں ہوتے، احتجاج جاری رہے گا۔ لواحقین کا کہنا تھا کہ اگر نوجوانوں پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ قانونی عمل کے ذریعے شواہد سامنے آئیں۔
اس موقع پر لاپتہ نوجوان زاہد بلوچ کے والد حمید بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کو بے بنیاد الزامات پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ "اگر میرے بیٹے پر کوئی جرم ثابت ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے، تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکے۔ عدالتوں کو نظرانداز کر کے نوجوانوں کو جبری طور پر غائب کرنا انصاف کا قتل ہے۔"
اسی طرح، لاپتہ سرفراز بلوچ کی والدہ بی بی گلشن بلوچ نے کہا کہ ان کا بیٹا بالکل بے قصور ہے۔ "میرے بیٹے کو کسی جرم کے بغیر گھر سے اٹھایا گیا۔ ہم صرف انصاف چاہتے ہیں اور اپنے بیٹے کو واپس چاہتے ہیں۔"
مزید برآں، ماری پور کے علاقے سنگھور پاڑہ سے تعلق رکھنے والے دو سگے بھائی، شیراز اور سیلان بلوچ، 23 مئی 2025 کو مبینہ طور پر کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کے ہاتھوں گھر پر چھاپے کے دوران گرفتار کیے گئے تھے۔ تاحال ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ ان کی والدہ اماں سبزی بلوچ نے بتایا کہ ان کے دونوں بیٹے بے گناہ ہیں اور ان کی جبری گمشدگی کے باعث پورا خاندان ذہنی اور معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔
مظاہرین نے کہا کہ جبری گمشدگیاں نہ صرف متاثرہ خاندانوں کو اذیت میں مبتلا کر رہی ہیں بلکہ شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ سندھ، وزیر داخلہ اور چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا کہ لاپتہ نوجوانوں کو فی الفور عدالتوں میں پیش کیا جائے اور جبری گمشدگی کے سلسلے کو بند کیا جائے۔