کوئٹہ ( ویب ڈیسک ) بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی کابینہ کے اراکین پر مشتمل وفد نے چیئرمین بالاچ قادر کی سربراہی میں سردار اختر جان مینگل سے ملاقات کی۔ وفد میں مرکزی سینیئر وائس چیئرمین نذیر بلوچ، مرکزی سیکرٹری جنرل صمند بلوچ اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات شکور بلوچ شامل تھے۔ ملاقات میں نہ صرف بلوچ طلباء کو درپیش فوری نوعیت کے مسائل زیر بحث آئے بلکہ بلوچستان کی مجموعی سیاسی فضا، ریاستی اور قومی تبدیلیوں کے اثرات پر بھی کھل کر گفتگو کی گئی۔
ملاقات میں چیئرمین بی ایس او نے سردار اختر جان مینگل کو طلبا کو درپیش مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگیاں، بوگس ایف آئی آرز، مسلسل نگرانی، تعلیمی اداروں میں ریاستی مداخلت، اور علمی ماحول کی زوال پذیری جیسے عناصر نہ صرف طلباء کے ذہنی و نفسیاتی سکون کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ یہ بلوچ سماج کی سیاسی ساخت کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ ان مسائل کی بنیاد دراصل اس نوآبادیاتی طرزِ حکمرانی میں ہے جو بلوچ طالبعلم کو ایک باشعور سیاسی اکائی کے بجائے محض سیکیورٹی رسک کے طور پر دیکھتی ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی ہر حکمتِ عملی دراصل قوم کو فکری سطح پر بانجھ بنانے کی کوشش ہے۔
سردار اختر جان مینگل نے اس موقع پر کہا کہ طلباء کسی بھی قوم کی فکری ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی ایس او نے ہمیشہ بلوچستان کے اندر سیاسی شعور، علمی جدوجہد اور قومی مزاحمت کو زندہ رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاستی جبر کے اس ماحول میں جہاں ہر باشعور آواز کو خاموش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، وہاں بلوچ طلباء کو چاہیے کہ وہ اپنی فکری صلاحیت کو جدوجہد کے محور میں تبدیل کریں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بلوچ سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے نوجوانوں کی مسلسل شمولیت، تنظیمی تربیت اور اصولی استقامت ناگزیر ہے، اور یہ عمل تبھی ممکن ہے جب بی ایس او جیسے ادارے اپنے فکری ورثے کو نئی نسل تک منتقل کرتے رہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب تک بلوچ طلباء کو علمی و فکری خودمختاری حاصل نہیں ہوگی، تب تک سیاسی خود ارادیت کا خواب بھی ادھورا رہے گا۔ ریاست جس طرح تعلیمی اداروں کو سیکیورٹی زونز میں تبدیل کر چکی ہے، اس کا مقصد صرف تعلیم کو کنٹرول کرنا نہیں بلکہ قوم کے اجتماعی شعور کو محدود کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ایک قوم کے نوجوان خود کو غیرمحفوظ اور غیرمربوط محسوس کریں تو وہ یا تو مایوسی کا شکار ہوتے ہیں یا غیرمتوازن ردعمل کی طرف مائل ہو جاتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ بلوچ طلباء کو فکری استقامت، تنظیمی ربط اور سیاسی رہنمائی فراہم کی جائے تاکہ وہ قومی جدوجہد میں مثبت اور بامعنی کردار ادا کر سکیں۔
ملاقات کے آخر میں بی ایس او کے وفد نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ہر سطح پر طلباء کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے اور بلوچ قومی تحریک کو تعلیمی محاذ سے مستحکم بنانے میں اپنا تاریخی کردار نبھاتے رہیں گے۔ بی ایس او نے واضح کیا کہ وہ کسی وقتی فائدے یا سیاسی مصلحت کا حصہ بننے کے بجائے فکری خودمختاری لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ وفد نے اس امید کا اظہار کیا کہ بلوچ قیادت طلباء کی آواز کو سنجیدگی سے سنے گی اور انہیں قومی بیانیے کا ایک لازمی اور باوقار حصہ تسلیم کرے گی۔