تربت ( بلوچستان ٹوڈے ) محترم ساتھیو!
تمھیں یہ سطور اس قید خانہ کی سلاخوں کے پیچھے سے بھیج رہا ہوں، جہاں درد، تنہائی، یادیں، اضطراب اور عزم سب ایک ہی چھت تلے سانس لے رہے ہیں۔
یہ در و دیوار شاید کسی اور کے لیے محض قید و بند کی علامت ہوں، مگر میرے لیے یہ وہ سنگین مقام ہے جہاں فکر و فہم اور جدوجہد ایک نئی جہت اختیار کرتے ہیں۔ یہاں ہر لمحہ مجھے میرے اُن ساتھیوں کی یاد دلاتا ہے جن کے ساتھ میں نے کارزارِ حریت میں قدم سے قدم ملایا، اور جن میں سے کئی اب زندہ نہیں یا گمشدگی کی دھند میں کہیں کھو گئے ہیں۔
جیل میرے لیے اجنبی جگہ نہیں۔ میں نے اس راہ کو شعوری طور پر چُنا ہے۔ جب میں باہر تھا، تو اندر موجود قیدیوں کی چیخیں میرے ضمیر کو جھنجوڑتی تھیں۔ مجھے قرار نہ تھا۔ جن ماں بہنوں کی آہوں نے میرا دامن پکڑا، جن معصوم بچوں کی نظریں سوال بن گئیں، اُن کا درد مجھے ہر محفل میں کھینچ لاتا۔ میں خود کو اُن سب کے سایے کی طرح محسوس کرتا تھا۔ اس لیے میرا یہاں ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔
آج جب میں سینٹرل جیل تربت کی دیواروں سے ٹیک لگا کر سوچتا ہوں، تو محسوس کرتا ہوں کہ میرے جیسے ہزاروں زاکر جان، دین جان جیسے رفیقِ کار، انہی در و دیوار کو تکتے ہوئے شاید انہی خیالات میں الجھے ہوں گے۔ مگر ہمارے عزم میں کبھی لغزش نہ آئے، یہی دعا ہے۔ ہم نے جو خواب دیکھے ہیں، وہ ابھی ادھورے ہیں۔ ہمیں مزید بچوں کو زندانوں سے بچانا ہے، جبری گمشدگان کو آزاد کرانا ہے، دھرتی ماں کے دامن سے خون کے دھبے دھونا ہیں۔ ایک آزاد، باوقار اور خوشحال بلوچستان ہماری میراث ہے، اور ہم اس خواب سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔
یہ جگہ میرے لیے اس لیے بھی باعثِ فخر ہے کہ یہاں وہی دیواریں، وہی آہنی سلاخیں شہید حمید جان جیسے انقلابی کو بھی چھو چکی ہیں۔ میں نے اُن کا نام اُس وقت سنا جب بولنا بھی نہیں آتا تھا۔ میری ماں اُن کی انقلابی لوریاں سناتی تھی اور میں ننھے وجود میں جھوم اٹھتا تھا۔ آج انہی دیواروں کے درمیان، میں خود کو اُس لوری کا تسلسل سمجھتا ہوں۔
میں اکثر لکھنے بیٹھتا ہوں، مگر بہت سے خیالات صفحے پر اترنے سے پہلے دل میں کہیں ٹھہر جاتے ہیں۔ انہیں صفحے پر لانے سے پہلے میں اُن کی روانی کو جی لینا چاہتا ہوں۔ آج قلم اٹھایا تو مقصد تھا اپنے تمام ساتھیوں کو پیغام دینا کہ: رکنا نہیں ہے، جھکنا نہیں ہے، بکنا نہیں ہے۔
ہمیں زیادہ بڑے دل، زیادہ گہری بصیرت اور زیادہ مضبوط حوصلے رکھنے ہوں گے۔ یہ سفر طویل ہے، شاٹ کٹ نہیں، مگر منزل یقیناً ہماری ہے۔
ہر ساتھی اپنے اندر سینکڑوں ساتھیوں کی گنجائش پیدا کرے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے ایک دوسرے کا سہارا بنے۔ یہی انقلاب کی روح ہے۔ یاد رکھو، راستے کے پتھروں کو مت گنو، صرف منزل کو دیکھو۔
میرا ایمان ہے ہم کامیاب ہوں گے۔
سلامت رہو، ثابت قدم رہو!
والسلام،
گلزار دوست بلوچ
22 جولائی 2025
سینٹرل جیل، تربت