کوئٹہ (بلوچستان ٹوڈے)انسداد دہشت گردی عدالت کوئٹہ نے خاتون اور مرد کے قتل کے مقدمے میں نامزد ملزم سردار شیر باز ساتکزئی کا پولیس کی استدعا پر مزید 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
کوئٹہ میں انسداد دہشت گردی عدالت نمبر ایک میں خاتون اور مرد کے قتل کیس کی سماعت ہوئی، اس موقع پر پولیس نے نامزد ملزم سردار شیر باز ستکزئی کو عدالت میں پیش کیا۔
عدالت نے پولیس کی استدعا پر مزید 10 روز کا ریمانڈ منظور کرتے ہوئے سردار شیر باز ستکزئی کو سیریس کرائم انوسٹی گیشن ونگ کے حوالے کردیا۔
عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سردار شیر باز ستکزئی نے کہاکہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر تحقیقات کرنے کے بعد بیان دیں، پولیس نے ملزم کو مزید بات کرنے سے روک دیا۔
واضح رہے کہ کوئٹہ کے نواحی علاقے ڈیگاری میں عیدالاضحیٰ سے 3 روز قبل بانو ساتکزئی اور احسان اللہ سمالانی کو بے دردری سے سرعام قتل کیا گیا تھا، واقعے کی ویڈیو 2 روز قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان سردار سرفراز بگٹی کی جانب سے واقعے کا نوٹس لینے پرپولیس حرکت میں آئی تھی۔
واقعے کا مقدمہ ہنہ اوڑک تھانے میں ایچ ایچ او کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جبکہ پولیس نے مرکزی ملزم بشیر احمد اور ستکزئی قبیلے کے سربراہ سردار شیر باز ستکزئی، ان کے 4 بھائی اور 2 محافظوں سمیت دیگر ملزمان کو گرفتار کرلیا تھا۔
مدعی مقدمہ کے مطابق بانو ساتکزئی اور احسان اللہ سمالانی کو کاروکاری کے الزام میں قتل کیا گیا، واقعے میں مبینہ طور پر شاہ وزیر، جلال، ٹکری منیر، بختیار، ملک امیر، عجب خان، جان محمد، بشیر احمد اور دیگر 15 نامعلوم افراد شامل تھے۔*
مدعی نے الزام لگایا کہ ان افراد نے خاتون اور مرد کو سردار شیر باز خان کے سامنے پیش کیا جہاں سردار نے کاروکاری کا فیصلہ سنایا اور دونوں کو قتل کرنے کا حکم دیا، بعدازاں انہیں گاڑیوں میں لے جا کر کوئٹہ کے مضافاتی علاقے ڈیگاری میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان سردار سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ ڈیگاری میں قتل کیے گئے خاتون اور مرد کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں تھا، دونوں شادی شدہ تھے اور دونوں کو 5،5 بچے تھے۔
دوسری جانب بانو کی ماں نے جاری ویڈیو بیان میں جرم قبول کی ہے کہ انھیں انھوں مل کر قتل کردیا جوکہ بلوچی غیرت کی وجہ سے تھی۔
"میرا نام گل جان ہے اور میں بانو کی ماں ہوں۔
میں اس قرآن پاک کو سامنے رکھ کر سچ بول رہی ہوں، جھوٹ نہیں بول رہی۔
سرفراز بگٹی! حقیقت یہ ہے کہ بانو پانچ بچوں کی ماں تھی، وہ کوئی بچی نہیں تھی۔
اس کا بڑا بیٹا نور احمد ہے، جس کی عمر 18 سال ہے۔
دوسرا بیٹا واسط ہے، جو 16 سال کا ہے۔
اس کے بعد اس کی بیٹی فاطمہ ہے، جو 12 سال کی ہے۔
پھر اس کی بیٹی صادقہ ہے، جو 9 سال کی ہے۔
اور سب سے چھوٹا بیٹا زاکر ہے، جس کی عمر 6 سال ہے۔
کیا ایک بلوچ کا ضمیر یہ گوارا کرے گا کہ اتنے بچوں کی ماں کسی دوسرے مرد کے ساتھ بھاگ جائے؟
بے شک، ہم نے انہیں قتل کیا، یہ کوئی بے غیرتی نہیں تھی بلکہ بلوچ رسم و رواج کے مطابق کیا گیا۔
سرفراز بگٹی! تم ہمارے گھروں پر چھاپے بھیجتے ہو، ہمارا قصور کیا ہے؟
ہم نے جو بھی کیا، غیرت کے تحت کیا، کوئی گناہ نہیں کیا۔
میری بیٹی بانو اور احسان اللہ پڑوسی تھے۔ بانو 25 دن احسان کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور وہ اس کے ساتھ رہ رہی تھی۔
25 دن بعد وہ واپس آ گئی۔ تب بانو کے شوہر نے بچوں کی خاطر اسے معاف کر دیا اور اسے ساتھ رکھنے پر راضی ہو گیا۔
مگر احسان اللہ باز نہیں آیا۔ وہ ہمیں ویڈیوز بھیجتا تھا۔ ٹک ٹاک پر ہاتھ پر گولی رکھ کر کہتا تھا:
‘جو مجھ سے لڑنے آئے، وہ شیر کا دل رکھ کر آئے۔’
وہ ہمیں دھمکیاں دیتا تھا۔
میرے بیٹے کی تصویر پر کراس کا نشان لگا کر کہتا تھا:
‘میں اسے مار دوں گا۔’
اتنی رسوائی اور بے غیرتی ہم برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
ہم نے جو بھی کیا، اچھا کیا۔
اس قرآن پر قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہیں قتل کرنا ہمارا حق تھا۔"
سردار ساتکزئی کو رہا کیاجائے