پنجگور اتوار کی مغرب کے وقت لاپتہ ہونے والے ذیشان ظہیر کی نعش ش برآمد

 


پنجگور ( مانیٹرنگ ڈیسک) مقبوضہ بلوچستان کے ضلع پنجگور خدابادان سے گزشتہ روز مغرب کے وقت پاکستانی فورسز و مسلح افراد کے  ہاتھوں  جبری لاپتہ ذیشان ولد لاپتہ ظہیر بلوچ کی نعش آج پیر کی صبح پنجگور کے علاقے سوردو میں غریب نواز ہوٹل کے قریب سے برآمد ہوا ہے۔

پولیس اورہسپتال ذرائع کے مطابق ذیشان کی لاش پر گولیوں کے متعدد نشانات پائے گئے ہیں لاش کو ضروری کارروائی کے لیے ٹیچنگ اسپتال پنجگور منتقل کر دیا گیا ہے۔

ذیشان کو اتوار کی شام کو فٹبال چوک سے اغوا کیا گیا۔ اور ان کی بازیابی کے لیے اہل خانہ اور مقامی افراد نے احتجاجی دھرنا بھی دیا تھا۔

ذیشان ظہیر بلوچ کے خاندان نے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں ان کے والد، ظہیر بلوچ، کی جبری گمشدگی کے خلاف مسلسل آواز بلند کرنے کی "سزا" دی گئی ہے۔



ظہیر بلوچ 13 اپریل 2015 کو حب چوکی سے پاکستانی فورسز ہاتھوں لاپتہ ہوئے تھے جو تاحال لاپتہ ہے ۔  ان کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کی تحویل میں ہیں۔

اہلخانہ کے مطابق ذیشان نہ صرف اپنے والد کی بازیابی کے لیے سرگرم تھے بلکہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں اور مہمات میں بھی حصہ لیتے رہے۔

ذیشان کے قتل کی خبر پر انسانی حقوق کے اداروں، سماجی کارکنوں اور علاقائی رہنماؤں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

خیال رہے کہ بلوچستان میں حالیہ مہینوں میں جبری گمشدہ افراد کو جھوٹے مقابلوں یا دوران حراست قتل کرکے لاشیں پھینکنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حقوق انسانی کے ادارے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں، مگر زمینی صورتحال میں خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔

انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ ذیشان ظہیر بلوچ کا قتل اسی سلسلے کی ایک اور کڑی ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورے معاشرے کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post