عوامی مسائل پر مجرمانہ خاموشی کیوں؟ کامریڈ وسیم سفر

  


کیچ ( پریس ریلیز ) انسانی حقوق ،سماجی سرگرم کارکن کامریڈ وسیم سفر بلوچ نے جاری بیان میں کہاہے کہ یہاں عوام کے مصائب اور مسائل پر کوئی سوچنے والا نہیں۔ بس ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر حکم نامے جاری کیے جاتے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کو جواز بنا کر سرحدوں کو بند کر دیا گیاہے، لیکن کیا کسی نے یہ سوچا کہ ان غریب مزدوروں کا کیا ہوگا جن کا روزگار انہی سرحدوں سے وابستہ ہے؟


انھوں  نے کہاہے کہ نہ کوئی متبادل روزگار کا بندوبست کیا گیا، نہ ہی کسی قسم کی مالی امداد۔ صرف ایک قلم کے اشارے پر ہزاروں لوگوں کو بیروزگار کر کے فاقہ کشی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ اشیائے خورد و نوش کی قلت بڑھ رہی ہے، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، اور مسافر کوچز کے کرائے عام انسان کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔


اگر عوامی مسائل کو مدنظر رکھا جاتا تو کم از کم ایک فیصد فیصلے غریبوں کے حق میں بھی کیے جاتے۔ مگر افسوس، یہ ملک صرف مقتدرہ قوتوں، سرمایہ داروں، اور جاگیرداروں کے لیے ہے—جنہیں روز بروز مزید طاقتور اور خوشحال بنایا جا رہا ہے، جب کہ غریب مزدوروں کا سانس گھونٹا جا رہا ہے۔


انھوں نے کہاہے کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایران کی جانب سے سرحدوں کی بندش کا کوئی حکم نامہ جاری نہیں ہوا۔ صرف اندرونِ ملک عوام دشمن، مزدور کش پالیسیوں کو تیزی سے نافذ کیا جا رہا ہے۔ جیسے اسرائیل بلوچستان کی سرزمین سے ایران پر حملے کر رہا ہو!


بلوچستان پہلے ہی ریاستی استحصال، وسائل کی لوٹ مار، اور عدم مساوات کی پالیسیوں کا شکار ہے۔ یہاں غربت اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے، اور اب مزدوری کی جو تھوڑی بہت گنجائش باقی تھی، اسے بھی بند کر دیا گیا ہے۔ کوئی متبادل روزگار نہیں، کوئی سماجی تحفظ نہیں۔


کامریڈ نے مزید  کہاہے کہ ایک مزدور دن میں 12 گھنٹے محنت کر کے بمشکل سو روپے کما پاتا ہے، لیکن حکمرانوں کی نظروں میں بلوچ قوم خودکفیل اور خوشحال نظر آتی ہے! جیسے امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں، ویسے ہی بلوچستان پر گزشتہ 77 برسوں سے ریاستی پالیسیاں پابندیوں، جبر، اور استحصال کا شکار ہیں۔


انھوں نے آخر میں کہاہے کہ بلوچ نہ تو ایٹمی ہتھیار بنا رہے ہیں، نہ ہی کسی جنگ کا آغاز کر رہے ہیں۔ مگر ان کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے جیسے وہ کسی خطرناک دشمن ہوں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بلوچ نسل کشی اور قتل عام میں اضافہ ہو رہا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post