خضدار( مانیٹرنگ ڈیسک ) خضدار ڈیتھ اسکوائڈ کارندوں کے ہاتھوں گذشتہ رات پولیس لائن سے اغوا ہونے والی لڑکی اسماءبلوچ کی بازیابی کیلے آج بلوچ یکجہتی کمیٹی اور لواحقین کی کال پر خضدار اور زہری میں بازار شہروں میں ہڑتالی جاری ہے سرکاری نجی اداروں سمیت کاروباری مراکز بند کردیئے گئے ہیں ۔ دوسری جانب 29 گھنٹوں سے خضدار کے مقام پر مرکزی شاہراہ پر دھرنا جاری ہے کراچی ،شال ،شھداد کوٹ سندھ شاہرائیں بند کریئے گئے ہیں ۔
آپ کو علم ہے خضدار پولیس لائن سے جمعرات کی شب ‘ڈیتھ اسکواڈ’ ارکان نے ایک گھر پر دھاوا بول کر اہلخانہ کو تشدد کا نشانہ بناکر خاتون کو اغواء کرکے لے گئے جن کے حوالے سے تاحال کوئی اطلاعات موصول نہیں ہوسکی ہے۔
واقعے کیخلاف مرکزی شاہراہ پر لواحقین و علاقہ مکینوں کا دھرنا گذشتہ روز سے جاری ہے جس کے باعث گاڑیوں کی آمد و رفت معطل ہوگئی ہے۔
علاقائی ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ مسلح گروہ کی سرپرستی بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری کررہے ہیں۔
آپ کو علم ہے خضدار کی طرح بلوچستان بھر میں سرکاری حمایت یافتہ مسلح گروہ تشکیل دیئے گئے ہیں جن کو حرف عام میں ڈیتھ اسکواڈز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ گروہ سیاسی کارکنان سمیت دیگر کے ٹارگٹ کلنگ، اغواء اور منشیات کاروبار کیلئے جانے جاتے ہیں۔
خضدار واقعے کے حوالے سے تاحال ضلعی حکام نے کوئی موقف پیش نہیں کیا ہے۔
واقع کے حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکاروں نے گذشتہ رات خضدار سے ایک بلوچ خاتون، عاصمہ بلوچ، کو ان کے گھر سے اغوا کر لیا۔
انہوں نے کہاہےکہ عاصمہ کے لواحقین نے خضدار میں دو مقامات پر دھرنا دے رکھا ہے، جہاں ان کی والدہ قرآن ہاتھ میں لیے بیٹھی ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہاہےکہ ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ نے بلوچستان میں شہریوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ فوج اور خفیہ اداروں کی سرپرستی میں یہ عناصر کسی بھی گھر میں گھس کر سفید پوش شہریوں کی عزتِ نفس کو پامال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاہےکہ میں خضدار کے عوام سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اس جبر کے خلاف آواز بلند کریں اور عاصمہ کے خاندان کے دھرنے میں شرکت کرکے ان کا ساتھ دیں۔
دوسری جانب سابق وزیراعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری ،ھلاک ہونے والے ڈیتھ اسکوءڈ کے سرغنہ سکندر زہری کے والد ہیں نے کہاہے کہ خضدار پولیس لائن واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ملوث افراد سے لا تعلقی اور ان کے خلاف قبائلی رسم و رواج کے تحت سخت سزادینے کا اعلان کرتاہوں انھوں نے کہاکہ اس واقعہ سے میرا یا تخت جھالاوان انجیرہ کا کوئی تعلق نہیں ہے جس شخص نے یہ حرکت کی ہے وہ نا قابل معافی جرم کیا ہے اس شخص سے ہمارا کوئی تعلق نھی ہے یہ عمل اس شخص کا ذاتی فعل ہے ،مغوی بچی میری بھی بچی ہے ۔
بلوچستان کے دیگر سیاسی سماجی تنظیموں نے بھی واقع کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے ۔
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان نے اللہ داد بلوچ کی شہادت پر رد عمل دیتے ہوئے جاری بیان میں کہا ہےکہ گز شتہ چند ماہ سے تربت و پنجگور میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات شدت اختیار کر رہے ہیں - ان کے پیچھے وھی عناصر ہیں جس پر ریاستی اداروں نے ایک عرصے سے اپنا دست شفقت انکے سروں پر رکھ کر پرورش کررہا ہے-
انھوں نے کہاہے کہ کچھ دن پہلے بھی تربت میں ساچان پبلک اسکول کے ڈائریکٹر شریف ذاکر کے گھر پر بم دھماکہ اور فائرنگ کراکے پورے علاقے کو دہشت زدہ کیا گیا. اسی تسلسل میں دو دن کے بعد شریف زاکر کے کم سن بیٹے کامل شریف اور انکے ایک رشتہ دار احسان سرور کو بھی جبری لاپتہ کیا گیا۔
ترجمان نے جاری بیان میں کہا ہے کہ اسی طرح گزشتہ شب خضدار میں ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈز ایک گھر میں دھاوا بول کر گھر میں موجود تمام مرد اور خواتین اور بچوں کو تشدد کرکے عاصمہ بلوچ نامی خاتون کو جبری طور پر اپنے ساتھ لے گئے۔ جس کے رد عمل میں خاندان نے پچھلے 24 گھنٹوں سے خضدار کراچی مین شاہراہ پر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں لیکن ریاستی حکام اور انتظامیہ ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈوں کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں۔
این ڈی پی نے کہا ہے کہ بلوچ سرزمین ریاستی نوآبادیاتی تسلط کے سبب پچھلے 77 سالوں سے جبر و تشدد اور وسائل کی لوٹ مار کے شدید زد میں ھونے کے باعث بد ترین استحصال کا شکار ہے- جبری گمشدگی اور ماورائے عدالتی قتل نا صرف ریاستی آئین بلکہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ورزیوں پر مشتمل ایک مجرمانہ عمل ھے۔
انھوں نے مزید کہاہے کہ موجودہ ریاستی رویہ اختیار کرنے کا مقصد بلوچ کے قومی وسائل پر حق و اختیار کے مطالبے سے بلوچ قوم کو دستبردار کرانا ہے، لیکن مطلق العنان بالادست حکمرانو ں کا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ھوگا- بلوچ وتمام محکوم اقوام کو ازسر نو متحد ھو کر جبروتشدد کا راستہ روکنے کے لئے منظم ہوکر مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے-
ترجمان نے آخر میں کہا ہے کہ اللہ داد بلوچ کی شہادت پر اہل خانہ کے دکھ درد میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی انکے ساتھ ھے- ناانصافی کے نظام کو مسترد کرتے ہیں اور ھر محاذ پر بلوچ کے انسانی حقوق کے خلاف وزریوں پر آواز بلند کرتے رہیں گے-
بلوچ نیشنل موومنٹ کے محکمہ انسانی حقوق پانک نے ایکس اکاؤنٹ میں جاری کردہ بیان میں لکھا کہ بلوچستان کے علاقے خضدار میں کل رات ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں ماورائے آئین و قانون عاصمہ جتک کی حراست بعد جبری گمشدگی کی مذمت کی اور لکھا کہ اس کا اغوا تقریباً ایک دہائی کی دھمکیوں، ایذا رسانی اور پاکستان کی فوج کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں کی طرف سے خطے میں استثنیٰ کے ساتھ کام کرنے والے تشدد کے بعد ہوا ہے۔ عاصمہ جتک اور ان کے خاندان کو 2014 سے شدید ظلم و ستم کا سامنا ہے، جب انہیں نواب ثناء اللہ زہری سے منسلک فورسز نے ان کے آبائی گاؤں انجیرہ، ضلع سوراب سے زبردستی بے دخل کر دیا تھا۔ ان کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا، اور ان کی کمیونٹی کو اندرونی طور پر بے گھر افراد (IDPs) کے طور پر بلوچستان اور سندھ میں ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ صورتحال اس وقت مزید خراب ہو گئی جب عاصمہ کے منگیتر عبدالسلام، جو انجینئرنگ کے آخری سال کے طالب علم تھے، کو ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے بے دردی سے قتل کر دیا گیا، جب خاندان نے عاصمہ کی جبری شادی کی اجازت ڈیتھ اسکواڈ کے رکن سے دینے سے انکار کر دیا۔ گزشتہ دس سال سے عاصمہ اور اس کا خاندان خوف کے عالم میں زندگی گزار رہے تھے، مسلسل دھمکیوں سے بچنے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ فرار ہو رہے تھے۔ عاصمہ کو منظم طریقے سے نشانہ بنانا، پہلے اس کے منگیتر کو قتل کرکے اور بعد میں مسلسل دھمکیاں دے کر، اس بات کی واضح مثال ہے کہ کس طرح صنفی بنیاد پر تشدد کو بلوچ خواتین کے خلاف ہتھیار بنایا جاتا ہے تاکہ پوری کمیونٹی کو خوف اور خاموش کیا جاسکے۔ اس کا اغوا بلوچستان میں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کی یاددہانی ہے، جہاں جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل اور اختلاف رائے پرتشدد جبر معمول بن چکے ہیں۔ پاکستانی حکام نے مسلسل ان جرائم کی حمایت کی ہے، جس سے مجرموں کو مکمل معافی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی خضدار زون
کے ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ
گزشتہ رات تقریباً 2 بجے، سرکاری سرپرستی میں پلنے والے سردار ثناء اللہ زہری کے نائب، رحیم بخش، نے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے خواتین کو جبری طور پر اغوا کر لیا۔ اس ظلم کے خلاف متاثرہ خاندان نے صبح 4 بجے خضدار کے مقام سنی سبزی منڈی میں مین آر سی ڈی روڈ کو بلاک کر دیا۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی خضدار زون اس غیر انسانی اور ظالمانہ اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے احتجاج کرنے والے خاندان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کرتی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اغوا شدہ خواتین کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے اور اس واقعے میں ملوث تمام عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
ترجمان نے کہاہے کہ ہم خضدار کے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں، احتجاج میں بھرپور شرکت کریں اور متاثرہ خاندان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں۔