تربت ( مانیٹرنگ ڈیسک ) تربت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما صبغت اللہ شاہ جی نے ساتھیوں کے ہمراہ تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی اور قتل کے خلاف 9 سے 11 فروری کو شہید فدا چوک پر احتجاجی کیمپ قائم کرنے اور آن لائن احتجاج کی کال دیتے ہوئے بلوچ عوام سے شریک ہونے کی اپیل کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ریاست کی جابرانہ قوتیں کیچ و مکران سمیت پورے بلوچستان میں ظلم و جبر کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں بلوچ نوجوانوں کو جبری طور پر گمشدہ کرنے اور شہید کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ بلوچ نسل کشی کی نئی حکمت عملی یہی ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جائے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جائے اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جائیں لیکن یہ کوئی نئی پالیسی نہیں، بلکہ یہ ہمیشہ سے ریاست کا ہتھکنڈہ رہا ہے۔
انھوں نے کہاکہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب ایک بلوچ نوجوان جبری طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے اور اس کے اہل خانہ انصاف کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو ادارے طاقت کا استعمال کرتے ہیں لیکن جبری گمشدگیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے میں ناکام رہتے ہیں۔
شاہ جی نے کہا کہ تربت شہر میں اہلکاروں نے بلوچ دانشور و محقق اللہ داد واحد کو ٹارگٹ کرنے کے بعد شہید کر دیا۔ اللہ داد کراچی یونیورسٹی سے تاریخ میں گریجویشن کر چکے تھے اور اسلام آباد میں ایم فل کر رہے تھے۔ وہ ایک علمی شخصیت تھے جو پڑھنے لکھنے، تحقیق کرنے اور کتابیں شائع کرنے میں مصروف تھے۔ وہ بلوچ طلبہ اور نوجوانوں کے لیے ایک استاد اور رہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔
انھوں نے کہاکہ ہم جانتے ہیں کہ بلوچ دشمن ہمیشہ بلوچ طلبہ دانشوروں اور علمی شخصیات کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ بلوچ نوجوان تعلیم حاصل نہ کر سکیں اور ان کی سوچ کو زنجیروں میں جکڑ دیا جائے یہی وجہ ہے کہ پچھلے دو ماہ کے دوران مختلف علاقوں میں اللہ داد واحد سمیت 8 بلوچ نوجوانوں کو شہید کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران مکران و بلوچستان کے دیگر علاقوں میں 8 نوجوان شہید کیے گئے جن میں 30 نومبر 2024 کو آواران میں فقیر جان سید محمد عصا بلوچ اور نورالدین کو شہید کیا گیا یہ نوجوان پہلے ریاستی جیلوں میں قید تھے فقیر جان کو 26 ستمبر 2024 اور عصا بلوچ کو 17 فروری 2023 کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔27 دسمبر کو تمپ میں ظریف عمر کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔11 جنوری کو گوادر میں زکریا بلوچ کو شہید کیا گیا انہیں 27 ستمبر 2024 کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا اور 11 جنوری کو انہیں قتل کر دیا گیا۔11 جنوری کو خضدار کے علاقے زہری میں جارحیت میں ایک 16 سالہ نوجوان کو شہید کیا۔
بی وائی سی رہنماؤں نے کہا کہ ماہ جنوری میں افضل منظور کو ایک بم حملہ میں شہید کیا گیا جو 10 دسمبر 2024 کو تربت میں لاپتہ کیے گئے تھے، پہلے ان کے اہل خانہ کو براساں کیا گیا اور احتجاج کے دوران بھی ان پر تشدد کیا گیا۔ 14 جنوری کو جہان زیب کو شہید کیا گیا 25 جنوری کو مشکے میں پنڈوک ولد سومار کو دو ساتھیوں کے ہمراہ اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ 4 فروری کو تربت میں اللہ داد واحد کو ایک ہوٹل میں فائرنگ کرکے شہید کیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی واضح طور پر کہتی ہے کہ پاکستان کی جانب سے بلوچ نسل کشی کی پالیسی میں تیزی آ رہی ہے اس نئی حکمت عملی میں بلوچ نوجوانوں کو قتل کرنا خوف و ہراس پھیلانا تعلیمی و فکری شخصیات کو نشانہ بنانا شامل ہے ہم اس نسل کشی کے خلاف خاموش نہیں رہیں گے۔ اگر ہم خاموش رہے تو یہ ریاست ہمارے باقی ماندہ نوجوانوں کو بھی قتل کر دے گی۔
پریس کانفرنس میں کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی بلوچستان بھر کے عوام سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ریاست کے ان مظالم کے خلاف 9 سے 11 فروری تک تربت کے شہید فدا چوک میں تین روزه احتجاجی کیمپ میں شرکت کریں اس کے علاوہ آن لائن بھی اس احتجاج کا حصہ بنیں شہید بلوچ نوجوانوں کے اہل خانہ اور کیچ کے عوام سے گزارش ہے کہ وہ بڑی تعداد میں اس احتجاج میں شریک ہوں اور ان مظالم کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔