کوئٹہ ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ نیشنل مومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں کہاہے کہ بھوک ہڑتالیں اور احتجاجی کیمپ بلوچستان میں ایک دل دہلا دینے والا معمول بن چکے ہیں، جو اپنے پیاروں کے لیے انصاف کے حصول کے لیے خاندانوں کی ناقابل شکست جدوجہد کی عکاسی کرتے ہیں۔ ماما قدیر کا احتجاجی کیمپ، جو 2009 میں قائم کیا گیا تھا، بلوچ لاپتہ افراد کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے لچک کی علامت بنا ہوا ہے۔
انھوں نے کہاہےکہ کئی سالوں کے دوران اہل خانہ، کارکنوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں احتجاج کیا، لیکن ان کی آوازیں ا نھیں سنائی نہیں دیتیں۔
نسیم نے کہا ہے کہ آج یہ تلخ حقیقت آواران میں جاری ہے جہاں زینب بلوچ نے ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے احتجاجی کیمپ لگا رکھا ہے۔ وہ اپنے بھائی دل جان بلوچ کی بحفاظت رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے مرتے دم تک بھوک ہڑتال پر ہے، جسے پاکستانی فوج نے 12 جون 2024 کو اغوا کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے، اس کا ٹھکانہ معلوم نہیں ہے۔ دنیا کو نوٹس لینا چاہیے: پاکستان بلوچستان میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔
چیئرمین نے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں، اغواوں اور آوازوں کو خاموش کرانے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری پاکستان کا احتساب کرے اور آزادی کی جنگ میں بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو۔