تربت ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ اسٹوڈنس ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام دو روزہ صبادشتیاری ادبی و علمی فیسٹیول کا عطاشاد ڈگری کالج تربت میں افتتاح کیا گیا-
افتتاحی تقریب میں تربت یونیورسٹی شعبہ بلوچی کے لیکچرار پروفیسر بالاچ بالی نے صباء دشتیاری کے علمی وادبی خدمات پر مقالہ پڑھا جبکہ تعلیم کے عنوان پر پینل بحث کا انعقاد کیاگیا-
پروگرام میں صبادشتیادی کی علمی و ادبی زندگی اور ان کے خدمات پر ڈاکومنٹری پیش کیا گیا-
پروگرام میں بلوچی عہدی لبزانک کے عنوان پر پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا جس کے ماڈریٹر نوجوان تنقید نگار جمال منظور جبکہ مہمان معروف ادیب وقلمکار بلوچستان اکیڈمی کیچ کے چیرمین ڈاکٹر غفور شاد تھے-
ڈاکٹر غفور شاد نے کہاکہ عہدی لبزانک کسی بھی قوم کا علمی وادبی اثاثہ ہوتا ہے جس میں کسی بھی قوم کی ثقافت، تاریخ،زبان اور رسم و رواج سمیت مذہبی عقائد کا اظہار ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم بھی عظیم ادبی اثاثہ اور کلاسیکل شعری میراث کا مالک ہے جس میں بلوچ قوم کی ہزاروں سالہ قدیم تاریخ وثقافت اور سماجی ڈھانچے کا حصہ شامل ہے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ہم نے عصر حاضر میں قدیم اور کلاسیکل بلوچی کو چھوڑ کر دیگر اقوام کے ادب کا مطالعہ شروع کیا ہے اور اپنے عہدی کلاسیکل سے بیگانہ ہیں یہی وجہ ہیکہ موجودہ شعراء میں سے بیشتر شعراء اپنے بلوچی کلاسیکل شاعری سے ناواقف اور لاعلم ہیں یہی وجہ ہیکہ موجودہ شعراء میں آپکو کلاسیکل رنگ دکھائی نہیں دیتا مگر ملا فاضل،سید ھاشمی، عطاشاد اور غلام حسین شوہاز کی شاعری کو سامنے رکھیں تو ان کے اندر عہدی کلاسیکل شاعری کا رنگ بہترین انداز میں جھلکتا نظر آتاہے-
ان کا مزید کہنا تھا کہ عصر حاضر میں ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کلاسیکل عہدی شاعری کا مطالعہ کریں اور اس سے جڑے رہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج سے چالیس پہلے کوئی گھرانہ ہمارے ہاں ایسا نہ تھا جہاں کسی بوڑھی ماں کو قصے کہانیاں یاد نہ ہوں اور رات کھانے سے فراغت کے بعد ہر گھر میں لوگ اکھٹے ہوکر اس بوڑھی خاتون سے قصے کہانیاں سنا کرتے تھے-
پروگرام میں بک اسٹال کے علاوہ سائنسی اور تصاویر کے اسٹال بھی لگائے گئے ہیں۔
پروگرام مختلف موضوعات پر پینل ڈسکشنز اور مشاعرہ و میوزیکل حصہ بھی شامل ہے۔