شال بی ایس ایف شال زون کی جانب سے مہرگڑھ ادبی اور تعلیمی میلہ کے نام سے سیمینار کا انعقاد کیاگیا



کوئٹہ (مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ شال زون کی طرف سے 26 نومبر بروز منگل “مہرگڑھ لٹریری اینڈ ایجوکیشنل فیسٹیول” کے نام سے جامعہ بلوچستان میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جو کہ مختلف سیشنز پر مشتمل تھے۔ مزکورہ سیمینار میں پینل ڈسکشن، تقریر، مشاعرہ، میوزیکل پروگرام وغیرہ شامل تھے، جس میں پہلا سیشن دور حاضر کے جدید ٹیکنالوجی اور بلوچی براہوئی زبان کی صورتحال، ترقی اور تحفظ کے موضوع پر مرکوز رہی، جس میں موڈریٹر بی ایس ایف جامعہ کراچی کے سابقہ صدر یاسر ناصر جبکہ پینلسٹ میں بلوچی زبان کے لکھاری، مترجم واجہ شرف شاد اور براہوئی زبان کے لکھاری اور تلار میگزین کے ایڈیٹر واجہ عبدالرازق ابابکی تھے۔ مذکورہ بالا پینلسٹس نے انتہائی جامع، پُرمغز اور خوش اسلوبی کیساتھ موجودہ دور میں جدید ٹیکنالوجی سے تبدیلیوں، اثرات اور بلوچی براہوئی زبان کے صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس دور حاضر میں دنیا ٹیکنالوجی کی بدولت برق رفتاری سے بدل رہی ہے، نت نئی ڈھانچوں، اشکال، اقدار اور ضروریات کا باعث بن رہی ہیں۔ اگر ہم اس جدید دور کے تقاضوں کے ادراک اور اس کے موافق چلنے کی جدوجہد نہیں کریں گے، تو یہ یقینی ہے کہ ہماری زبان تنزلی اور معدومیت کی طرف جائے گا۔ لہذا، ہمارے قوم کے تمام طبقہ فکر کے لوگوں کو چاہیے کے وہ بلوچی اور براہوئی زبان کو اولین ترجیح دے کر پڑھیں، لکھیں اور ترقی کے راہ پر گامزن کرنے کی سعی کریں، خاص کر وہ لوگ جو ٹیکنالوجیکل چیزوں میں دسترس یا مہارت رکھتے ہیں، انہیں چاہیے وہ اپنی مادری زبان پر زیادہ سے زیادہ کام کریں اگر اس دور میں ہم نے اپنی زبان کی تحفظ نہ کرسکے، تو مسقبل قریب یا بعید میں ہماری زبان یقیناً ہولناک مستقل سے دو چار ہوگا۔

دوسری پینل بحث “بلوچ طلبہ سیاست کا عروج و زوال” پر تهی اس کے موڈریٹر بی ایس ایف کے مرکزی سیکرٹری جنرل گل حسن بلوچ تھے جبکہ پینلسٹس بی ایس ایف کے مرکزی چیئرمین جاوید بلوچ، بی ایس او کے مرکزی چیئرمین بالاچ قادر اور بی ایس او پجار کے مرکزی چیئرمین بوہیر صالح تھے۔مذکوره پینلٹس نےطلبہ سیاست کے عروج و زول ، موجود دور کے طلبہ سیاست پر مشکلات ، تنظیوں کے تقسیم در تقسیم اور ان کی اہمیت اور افادیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قومی جدوجہد میں تنظیمیں تقسیم در تقسیم ہوتے ہیں بشرطیہ کہ وہ تقسیم اپنی زاتی زد و انا کی وجہ سے نہ ہو یہ قومی جدوجہد کے حصہ ہیں نہ صرف بلوچ قوم بلکہ دنیا میں وہ تمام قوم جو جدوجہد کے پروسیز سے گزرے ہیں انہیں تقسیم در تقسیم کے شکار رہیں ہیں۔

چیئرمین جاوید بلوچ نے کہا کہ طلبہ تنظیموں کو کسی ایک سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہونا چاہیے۔ طلبہ کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ آپ کو فلاں خاص پارٹی میں شامل ہونا ہے، یہ ایک ڈکٹیٹری رویہ ہے۔ طلبہ سیاست کے بعد آپ جس بھی پارٹی میں جانا چاہیں،جائیں۔ ہمیں طلبہ کو سیاسی اور قومی شعور دینا چاہیے تاکہ وہ خود فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور قومی مفاد کے لیے کام کرنے والے راستے کا انتخاب کریں۔ چاہے وہ کسی بھی پارٹی میں جائیں، لیکن انہیں ہمیشہ بلوچ قوم کے درد کو محسوس کرنا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ بی ایس او کی تقسیم کی بنیادی وجہ یہی جانبداری رہی ہے۔ اگر بی ایس او میں یہ روایت نہ ہوتی تو آج تک بی ایس او ایک متحد تنظیم ہوتی۔

پروگرام کا دوسرا حصہ تقریر کا تھا جس میں بلوچ تاریخ دان،لکھاری اور ریسرچر پروفسر فاروق بلوچ نے بلوچستان کے اندر آرکیالوجیکل سائیٹ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہزاروں ایسے مقامات ہیں جنہیں ابھی تک مکمل طور پر دریافت نہیں کیا جا سکا۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اس شعبے کے ماہرین کی کمی ہے۔ باہر سے آنے والے ماہرین نے بہت سی اہم چیزیں دریافت کی ہیں،لیکن دوسری جانب ریاست ان تاریخی مقامات کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر خاران، مہرگڑھ اور خضدار میں یہ صورتحال موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے ہر علاقے میں ایک میوزیم ہونا چاہیے تاکہ تمام قدیم آثار کو محفوظ کیا جا سکے۔

دوسری اسپیچ بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ شال زون کے صدر بانک مہرناز نے بلوچ سماج کے اندر خواتین کے مسائل کے بارے میں بات کی۔انہوں نے کہا کہ ہم بلوچ سماج کو سیکولر سماج کہتے ہیں لیکن حقیقت میں بلوچ سماج میں خواتین کو آزادانہ فیصلے کرنے کا حق نہیں ہے۔ وہ آزادانہ طور پر سیاسی سرگرمیاں میں بھی حصہ نہیں لے سکتیں۔اگر آج بلوچستان میں کوئی بلوچ عورت قومی سیاست میں سرگرم ہو اور اس کا والد، بھائی یا کوئی قریبی رشتہ دار لاپتہ ہو جائے یا شہید ہو جائے تو وہ اپنی سیاسی زندگی کا آغاز اسی مقام سے کرتی ہے۔ بعد میں ریاستی ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھاتی ہوئی اپنی قوم کی قیادت کرنے لگتی ہے۔ بلوچ سماج میں ایک طرف ریاست بلوچ عورت کی آزادی کے فیصلوں میں رکاوٹ بنتی ہے، تو دوسری جانب خاندان کی جانب سے بھی اسے مکمل آزادی نہیں دی جاتی۔ یعنی وہ ایک ساتھ دو محاذوں پر لڑ رہی ہوتی ہے۔8 مارچ کو دنیا بھر میں عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس میں عورتیں ریاست اور مردوں سے اپنے حقوق کی بات کرتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے بلوچ سماج میں ریاست نے ایسی ظالمانہ اور جبری کارروائیاں کی ہیں کہ بلوچ عورتیں اس دن اپنی پیاروں کی آزادی کے لیے احتجاج کرتی ہیں۔پروگرام کا تیسرا حصہ مشاعرہ تھا جو کہ وقت کی کمی کی وجہ سے نہیں ہو سکا۔پروگرام کے آخری حصے میں موسیقی کا پروگرام تھا جس میں استاد سلیم بلوچ، استاد سراج داد، استاد شمیم اختر اور استاد کمال بلوچ نے اپنی فن اور خوبصورت آواز سے سامعین کو مسحور کر دیا۔پروگرام کے اختتام پر مہمانوں کو بلوچی چادر تحفے میں دی گئی اور اس طرح پروگرام اپنے انجام کو پہنچا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post