پنجگور ،خاران (مانیٹرنگ ڈیسک)بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام پنجگور میں جبری گمشدگیوں کے خلاف ریلی نکالی گئی، ریلی میں بڑی تعداد میں شہریوں نے شرکت کی۔
ریلی کے شرکا نے شہید جاوید چوک سے ریلی نکالی جو شہر کے مختلف مقامات سے گزری، مظاہرین نے لاپتہ افراد کے تصاویر اٹھا رکھے تھے اور لاپتہ افرد کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے تھے ۔
پنجگور میں موبائل سروس بھی متاثر رہی ،اس سے قبل بھی جن جن علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے وہاں پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کی اور شہر میں موبائل سروسز بند کردئیے تھے ۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مہم، “خاموشی توڑنا: جبری گمشدگیوں کے خلاف کھڑے ہونا” کے عنوان سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جہاں اس سے قبل کراچی، حب چوکی خضدار، تربت اور آج پنجگور میں احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔جبکہ جمعہ کے روز 25 اکتوبر کو خاران میں ریلی نکالی جائے گی اور مظاہرہ کیا جائے گا ۔
پنجگور ، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ پنجگور میں ریاستی حکام نے احتجاج کے ایک شریک کو اغوا کر لیا اور احتجاج میں شامل دیگر افراد کی نگرانی جاری رکھی ہوئی ہے ۔
ترجمان نے کہاہے کہ مظاہرین کی زندگیاں شدید خطرے میں ہیں، کیونکہ انہیں جبری گمشدگی کا خطرہ ہے۔ پنجگور میں ہونے والے احتجاج کے بعد کئی مظاہرین نے تعاقب کیا اور ایک مظاہرین حسیب بلوچ، جو کہ اے آر آئی ڈی یونیورسٹی سے گریجویٹ طالب علم اور پنجگور کا رہائشی ہے، کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جبری طور پر لاپتہ کر دیاہے۔
ادھر خاران میں لاپتہ عبید اللہ بلوچ کی بازیابی کے لیے آج دوسرے دن بھی خاران ریڈ زون میں دھرنا جاری ہے ۔ بی وائی سی خاران زون نے جاری بیان میں کہاہے کہ خاران کے باشعور عوام سے اپیل کرتے ہے کہ لاپتہ عبیداللہ بلوچ کی بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کریں ۔
دریں اثناء خاران سے لاپتہ دو نوجوان بازیاب ہو گئے ہیں، ذرائع کے مطابق اگست کے مہینے میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ ہونے والے خاران کے رہائشی نوجوان شہزاد محبوب ملازئی اور خدائے رحیم داودی دو مہینے کے بعد بازیاب ہوکر منظر عام پر آگئے، واضع رہے دونوں نوجوان کی جبری گمشدگی کیخلاف لواحقین نے احتجاجی دھرنا بھی دیا تھا ۔