کوئٹہ ( پرہس ریلیز ) انسانی حقوق کی سرگرم تنظیم بلوچ وائس فار جسٹس نے ایک ہفتے کے دوران تربت، کراچی، حب اور پنجگور سے 18 سے زائد نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تنظیم نے بیان میں کہا ہےکہ بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں میں تشویشناک اضافہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ 16 اکتوبر کو کراچی سے شعیب، حنیف، اشفاق، شہزاد، بیبرگ، زبیر، قمبر، سعید اللہ اور جاوید کو حراست میں لے لیا گیا۔ ان کے اہل خانہ خوف کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ترجمان نے کہاہے کہ اس کے علاؤہ گزشتہ دنوں بھی کراچی میں پاکستانی فورسز نے ایک ہوٹل پر چھاپہ مار کر پنجگور پروم کے رہائشی چار نوجوانوں، زین بلوچ، ظریف احمد، اکرم بلوچ اور انیس بلوچ کو حراست کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ اس کے علاؤہ علی حیدر ولد حاجی نبی بخش کو خضدار کے علاقے کوڑاسک سے پاکستانی فورسز نے گذشتہ شب ایک بجے گھر پر چھاپہ مار کر حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ تربت سے جبری گمشدگیوں کی تصدیق کرتے ہوئے تنظیم نے مزید کہا کہ عطاء اللہ ولد نور بخش، یاسر بلوچ ولد حمید اللہ اور بلال امام ولد امام بخش کو بھی ریاستی فورسز نے حراست کے بعد جبری طور پر لاپتہ کر دیا ہے۔ یہ تینوں نوجوان 8 سے 13 اکتوبر 2024 کے درمیان تربت ضلع کیچ سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنے۔
جنئید حمید کو 8 اکتوبر کی رات حب چوکی سے جبکہ اس کے بھائی یاسر حمید کو 11 اکتوبر میں قلات سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
بلوچ وائس فار جسٹس نے اقوام متحدہ کے ورک گروپ برائے جبری گمشدگیوں، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سے اپیل کی ہے کہ وہ ریاستی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں اور جبری گمشدگیوں کا نوٹس لیں۔
تنظیم نے یاد دہانی کرائی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 65/209 اور 69/180 کے تحت جبری گمشدگیاں ایک سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، اور ہر ملک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان واقعات کی روک تھام کرے۔ شقیں 2 اور 4 میں واضح کیا گیا ہے کہ: ہر فرد کو غیرقانونی طور پر حراست میں لینے یا لاپتہ کرنے کے خلاف تحفظ فراہم کیا جائے۔شق 4 میں کہ گیا ہے کہ ریاستیں جبری گمشدگی کے واقعات کی تحقیقات کرنے اور ان کے خلاف مؤثر قانونی کارروائی کرنے کی ذمہ دار ہیں۔
تنظیم نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بلوچستان میں ہونے والی جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو نظر انداز کرنے سے ایک سنگین انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔