لبنان کے سیکیورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جمعہ کو بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک فضائی حملے میں حزب اللہ کے ایک اعلیٰ فوجی کمانڈر ابراہیم عاقل کو نشانہ بنایا جو حزب اللہ کے ایلیٹ رضوان یونٹ کے سربراہ تھے اور تقریباً ایک دہائی سے امریکی پابندیوں کی لسٹ میں شامل تھے۔
حزب اللہ کے قریبی ذرائع نے انہیں فواد شکر کے بعد گروپ کی عسکری قیادت میں دوسرے نمبر کے کمانڈر کے طور پر بیان کیا ہے ۔ فواد شکر 30 جولائی کو حزب اللہ کے جنوبی بیروت کے گڑھ میں اسرائیلی حملے میں ہلاک ہوئے تھے ۔
وہ غزہ جنگ پر عسکریت پسند گروپ اور اسرائیل کے درمیان تقریباً ایک سال کی جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے حزب اللہ کے دوسرے اعلی ٰ کمانڈر بن گئے ہیں ۔
حزب اللہ کی بیشتر عسکری قیادت کی طرح، عاقل کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب تھیں۔ انہیں گروپ کے ارکان صرف ان کے نام ڈی گورے حج عبدالقادر سے جانتے تھے۔
لبنانی حکام نے میڈیا کو بتایا ہے کہ اسرائیل نے بین الاقوامی ثالثوں کے ذریعے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ رضوان فورس کے جنگجوؤں کو، جو گروپ کی زمینی کارروائیوں کی قیادت کرتے ہیں، سرحد سے باہر دھکیل دیا جائے۔
امریکہ نے عاقل کو گروپ میں ایک “اہم رہنما” کے طور پر بیان کرتے ہوئے انکے بارے میں معلومات دینے پر اپنے “ریوارڈ فار جسٹس” پروگرام کے تحت ستر لاکھ ڈالر کے انعام کی پیشکش کی تھی۔
گروپ کے قریبی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ رضوان یونٹ حزب اللہ کی سب سے مضبوط عسکری قوت ہے اور اس کے جنگجو سرحد پار دراندازی کے تربیت یافتہ ہیں۔
اس ماہر یونٹ میں تجربہ کار جنگجو شامل ہیں، جن میں سے کچھ شام سمیت لبنان سے باہر بھی لڑ چکے ہیں، جہاں حزب اللہ 2013 سے صدر بشار الاسد کی فوورسز کی کھل کر حمایت کر چکی ہے ۔
امریکی وزارت خزانہ نے کہا ہےکہ عاقل نے شام میں ان گروپوں کی کارروائیوں میں “اہم کردار ادا کیا تھا۔
حزب اللہ پہلے ہی اکتوبر کے مہینے سے اب تک جنوب میں اپنے تین علاقائی یونٹس میں سے دو کے کمانڈروں کو کھو چکی ہے: محمد نعمہ ناصر، 3 جولائی کو جنوبی لبنان میں اپنی کار پر اسرائیلی فضائی حملے میں، اور طالب عبداللہ، اس سے ایک ماہ قبل ایک گھر پر حملے میں مارے گئے تھے ۔
رضوان فورس اپنے ایک اور اعلیٰ کمانڈر وسام تاویل سے بھی محروم ہوئی ہے، جو جنوری میں ہلاک ہوئے تھے۔
ان پر انعام کیوں رکھا گیا تھا؟
واشنگٹن کے مطابق عاقل حزب اللہ کی جہاد کونسل کے رکن تھے ، جو پارٹی کی اعلیٰ ترین عسکری تنظیم ہے۔
امریکی وزارت خزانہ نے کہا کہ وہ اسلامی جہاد تنظیم کے ایک “بنیادی رکن” تھے، جو حزب اللہ سے منسلک ایک گروپ ہے جو 1983 میں بیروت میں امریکی سفارت خانے پر ہونے والے اس بم دھماکے کے پیچھے تھا جس میں 63 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اور اسی سال بیروت میں امریکی میرینز پر ہونے والے اس حملے کے پیچھے بھی ان کا ہاتھ تھا جس میں 241 امریکی فوجی مارے گئے۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ عاقل 1980 کی دہائی کے آخر میں دو جرمنوں کو یرغمال بنانے اور 1986 میں پیرس میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث تھے۔
امریکی وزارت خزانہ نے 2015 میں، عاقل اور شکر کو دہشت گرد قرار دیا اور 2019 میں، امریکی محکمہ خارجہ نے انہیں “خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد” قرار دیا۔
لبنان کے سیکیورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جمعہ کو بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک فضائی حملے میں حزب اللہ کے ایک اعلیٰ فوجی کمانڈر ابراہیم عاقل کو نشانہ بنایا جو حزب اللہ کے ایلیٹ رضوان یونٹ کے سربراہ تھے اور تقریباً ایک دہائی سے امریکی پابندیوں کی لسٹ میں شامل تھے۔
اس ہلاکت سے اسرائیل اور ایران کے حمایت یافتہ گروپ کے درمیان ایک سال سے جاری تنازعہ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ نے عاقل کو گروپ میں ایک “اہم رہنما” کے طور پر بیان کرتے ہوئے انکے بارے میں معلومات دینے پر اپنے “ریوارڈ فار جسٹس” پروگرام کے تحت ستر لاکھ ڈالر کے انعام کی پیشکش کی تھی۔
وہ غزہ جنگ پر عسکریت پسند گروپ اور اسرائیل کے درمیان تقریباً ایک سال کی جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے حزب اللہ کے دوسرے اعلی ٰ کمانڈر بن گئے ہیں ۔
حزب اللہ کی بیشتر عسکری قیادت کی طرح، عاقل کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب تھیں۔ انہیں گروپ کے ارکان صرف ان کے نام ڈی گورے حج عبدالقادر سے جانتے تھے۔
حزب اللہ کے قریبی ذرائع نے انہیں فواد شکر کے بعد گروپ کی عسکری قیادت میں دوسرے نمبر کے کمانڈر کے طور پر بیان کیا ہے ۔ فواد شکر 30 جولائی کو حزب اللہ کے جنوبی بیروت کے گڑھ میں اسرائیلی حملے میں ہلاک ہوئے تھے ۔
گروپ کے قریبی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ رضوان یونٹ حزب اللہ کی سب سے مضبوط عسکری قوت ہے اور اس کے جنگجو سرحد پار دراندازی کے تربیت یافتہ ہیں۔
اس ماہر یونٹ میں تجربہ کار جنگجو شامل ہیں، جن میں سے کچھ شام سمیت لبنان سے باہر بھی لڑ چکے ہیں، جہاں حزب اللہ 2013 سے صدر بشار الاسد کی فوورسز کی کھل کر حمایت کر چکی ہے ۔
امریکی وزارت خزانہ نے کہا کہ عاقل نے شام میں ان گروپوں کی کارروائیوں میں “اہم کردار ادا کیا تھا۔
حزب اللہ پہلے ہی اکتوبر کے مہینے سے اب تک جنوب میں اپنے تین علاقائی یونٹس میں سے دو کے کمانڈروں کو کھو چکی ہے: محمد نعمہ ناصر، 3 جولائی کو جنوبی لبنان میں اپنی کار پر اسرائیلی فضائی حملے میں، اور طالب عبداللہ، اس سے ایک ماہ قبل ایک گھر پر حملے میں مارے گئے تھے ۔
رضوان فورس اپنے ایک اور اعلیٰ کمانڈر وسام تاویل سے بھی محروم ہوئی ہے، جو جنوری میں ہلاک ہوئے تھے۔
ان پر انعام کیوں رکھا گیا تھا؟
واشنگٹن کے مطابق عاقل حزب اللہ کی جہاد کونسل کے رکن تھے ، جو پارٹی کی اعلیٰ ترین عسکری تنظیم ہے۔
امریکی وزارت خزانہ نے کہا کہ وہ اسلامی جہاد تنظیم کے ایک “بنیادی رکن” تھے، جو حزب اللہ سے منسلک ایک گروپ ہے جو 1983 میں بیروت میں امریکی سفارت خانے پر ہونے والے اس بم دھماکے کے پیچھے تھا جس میں 63 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اور اسی سال بیروت میں امریکی میرینز پر ہونے والے اس حملے کے پیچھے بھی ان کا ہاتھ تھا جس میں 241 امریکی فوجی مارے گئے۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ عاقل 1980 کی دہائی کے آخر میں دو جرمنوں کو یرغمال بنانے اور 1986 میں پیرس میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث تھے۔
امریکی وزارت خزانہ نے 2015 میں، عاقل اور شکر کو دہشت گرد قرار دیا اور 2019 میں، امریکی محکمہ خارجہ نے انہیں “خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد” قرار دیا۔