بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم) کے سیکریٹری اطلاعات و نشریات قاضی داد محمد ریحان نے کہا ہے کہ گوادر کی صورتحال غزہ سے مختلف نہیں ہے۔ گوادر کو مکمل محاصرے میں لیا گیا ہے ۔ لوگوں کو آنے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ بلوچستان کے دیگر علاقوں سے لوگ سمندر کے راستے کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انھیں بھی اس کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ ابھی ان کا پانی بھی بند کر دیا گیا ہے۔یہ ساری صورتحال ہے جس میڈیا پر کوئی ذکر نہیں۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کی طرف سے بلوچ راجی مچی کے حوالے منعقدہ آگاہی نشست میں کیا۔
انھوں نے کہا جب پاکستان بنایا گیا تو خطے کے اقوام سے جن کی اکثریت مسلمان ہے جمہوریت اور اسلام کے وعدے کیے گئے۔ ان دونوں وعدوں کو پورا کرنے کی بجائے پاکستان خطے کی عوام سے بنیادی شہری حقوق بھی چھین لیے ہیں۔
قاضی ریحان نے کہا بلوچ آزادی کی تحریک اپنی جگہ ایک حقیقت ہے لیکن بی وائی سی انسانی حقوق کی ایک پرامن تحریک ہے جو بلوچوں کے لیے بنیادی انسانی حقوق کی بحالی چاہتی ہے۔
انھوں نے کہا بلوچوں کے خلاف ریاست جرائم کا مرتکب ہورہی ہے اور ان میں سب سے بڑا جرم جبری گمشدگی جو محض ایک فرد، قبیلہ اور قوم نہیں بلکہ پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
اس گفتگو کا مکمل متن:
بلوچ راجی مچی زوم آگہی نشست جے کے پی این پی: بلوچ راجی مچی بلوچ عوام اپنے حقوق کو لے کر نکلے ہیں
جبری گمشدگی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ جرم ہے، ایک فرد کی جبری گمشدگی ساری انسانیت کے خلاف جرم قرار دی گئی ہے۔
قاضی داد محمد ریحان سیکرٹری اطلاعات و نشریات، بی این ایم
(حصہ اول)
میں مشکور ہوں آپ دوستوں کا۔ ہم آپ کی جدوجہد کی قدر کرتے ہیں. بلوچستان کی صورتحال مختلف ہے،اس پورے ریجن میں، سندھ، کے۔پی۔کے، جموں کشمیر میں مختلف قسم کی صورتحال ہے۔ سب کے ساتھ کم و بیش یکساں سلوک ہو رہا ہے کہ ایک ملک بنا جمہوریت کے وعدے کیے گئے، اسلام کے وعدے کیے گئے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ ہماری جو قوم ہے، آپ لوگ ہیں ہم میں اکثریتی مسلمان ہیں ، تو وعدہ جمہوریت کا تھا، وعدہ اسلام کا تھا۔ لیکن جب پاکستان بنا یہ ساری چیزیں تو دی نہیں۔ اس کے علاوہ جو ضروری چیز ہوتی ہیں انصاف، برابری اور آزادی۔ کسی بھی انسان کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کو آزادی ملے، اس کو انصاف ملے اور برابری ملے۔ پاکستان نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ ایک باہر کا دشمن تھا، دور سے آیا تھا، ان کے ساتھ ہمارا کوئی مذہبی رشتہ نہیں تھا، زمین کا رشتہ نہیں تھا، یعنی ہماری زمین بھی نہیں ملتی تھی۔ لیکن اب تو یہ ہوا کہ ایک ایسا دشمن ہے جو ہم سے رشتے بھی بنانا چاہتا ہے، ہم سے رشتہ داری کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور تاریخی طور پر ہمارے رشتے بھئ موجود ہیں اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن یہ ایسا دشمن ہے جس کی دشمنی کے نہ کوئی اصول ہیں، نہ کوئی جنگ کے اصول ہیں۔ بلوچوں پر اس ریاست نے بہت ظلم ڈھائے۔ بلوچوں کی اجتماعی نسل کشی کی گئی ہے۔ بلوچوں کو جبری گمشدہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں ایک بات بہت ضروری ہے کہ مِسنگ پرسنز، میں اکثر دوستوں کو کہتا رہتا ہوں کہ درست لفظ استعمال کریں۔ جبری گمشدگی، جبری گمشدگی اقوامِ متحدہ کے قوانین کے مطابق دنیا بھر میں ایک ایسا جرم ہے کہ جو کسی ایک فرد کے ساتھ نہیں، کسی ایک قوم کے ساتھ نہیں، بلکہ جب کسی ایک فرد کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا جاتا ہے تو یہ مانا جاتا ہے، یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ پوری انسانیت کے خلاف جرم ہوا ہے۔ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کو سمجھنا چاہیے۔ یہ چھوٹی بات نہیں ہے کہ دنیا میں بہت سارے جرم ہوتے ہیں لوگ قتل کیے جاتے ہیں لیکن جبری گمشدگی بین الاقوامی طور پر انسانیت سوز جرم ہے۔
بلوچستان میں جو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی موجودہ تحریک ہے جس کو آپ اور ہم اس شکل میں دیکھتے ہیں تو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ یہ بلوچ تحریک آزادی سے الگ ہے۔
جو سیاسی قوتیں بلوچستان کی قومی آزادی کی بات کرتے ہیں وہ دوسرے ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی انسانی بنیادوں پر انسانی حقوق کو لے کر ایک تحریک چلا رہی ہے۔ اس کا تھوڑا سا آپکو پس منظر بتاتا ہوں۔
بلوچستان میں چند سال پہلے ( 26 مئی 2020 کو) کیچ کے علاقے میں ایک واقع ہوا تھا۔ ایک خاتون جن کا نام ملک ناز تھا ان کے گھر پر پاکستانی ڈیتھ اسکواڈز نے حملہ کیا، ہمارے سماج میں جو لوگ جرائم پیشہ ہیں، جو چوریاں اور ڈکیتیاں کرتے ہیں لوگوں کا قتل کرتے ہیں ، جو مسلح ہو کر لوگوں کو ڈراتے ہیں، ان کو اکٹھا کر کہ پاکستانی فوج نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ان کو ہم ڈیتھ اسکواڈز کہتے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کو پاکستانی ریاست کی ایما پر قتل کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو باقاعدہ پیسے بھی نہیں دیے جاتے بلکہ ان کو جرم کرنے کی آزادی دی جاتی ہے ۔
جیسا کہ ایک جرائم پیشہ گروہ نے رات کے اندھیروں میں سپیڈ بوٹوں(کشتیوں) کے سینکڑوں کی تعداد میں انجن کھول کر چوری کیے، جب ان کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو انھوں نے منصوبہ بندی کی کہ وہ کسی بلوچ آزادی پسند کو قتل کریں گے اور پھر جاکر پاکستانی فوج سے انعام وصول کریں گے کہ یہ دیکھیں ہم آزادی پسندوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، ہمیں جرائم کی آزادی اور اجازت دی جائے ، ایسے گروہوں کی ریاست نے پشت پناہی کی اور ان کو اوپر لایا، ایسا ہی ایک گروہ ملک ناز کے گھر داخل ہوا، ملک ناز نے مزاحمت کی وہ خاتون لڑی انھیں گولی لگیں اور وہ شہید ہو گئیں۔ ان کی ایک چھ سات سالہ بچی تھی، جن کا نام برمش تھا وہ زخمی ہو گئیں ۔
اس کے بعد کیچ میں ایک احتجاج ہوا ، مکران بلوچستان میں مزاحمت کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، یہاں لوگ سیاسی شعور، قومی سیاست سے آگہی رکھتے ہیں ۔ ایک واضح فرق یہ ہے کہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں سرداریت جو کہ تاریخی طور پر قبائلی کلچر ہے جسے انگریزوں نے بعد ازاں آلودہ کرکے بلوچ کے خلاف استعمال کیا ، لیکن مکران میں کئی سال پہلے عوامی انقلاب کے ذریعے سرداریت کو شکست دی گئی ۔ مکران میں تعلیم کا رجحان ہے، سیاست کا رجحان ہے، تو اس واقع کو لے کر کیچ میں جو مکران کا سینٹر ہے بہت جاندار احتجاج ہوا اہم بات یہ ہے کہ اس بچی کی آواز پر کوہ سلمان کے بلوچ جو ہزاروں کلومیٹر دور ہیں وہ بھی اس آواز اور احتجاج کا حصہ بنے ، اس حادثے نے بلوچوں کو ایک دوسرے کے بہت قریب کیا اور برمش یکجہتی کمیٹی وجود میں آئی۔
پھر بانک کریمہ بلوچ جو بی این ایم کی ممبر تھی اور بی ایس او ( آزاد) کی چیئرپرسن رہ چکی تھی کو کینیڈا میں قتل کیا گیا تو برمش یکجہتی کمیٹی کو بلوچ یکجہتی کمیٹی میں بدل دیا گیا ۔ اس کو نئی شکل میں ڈھالا تو بلوچ یکجہتی کمیٹی بنی جس کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے، نئی نسل سے قیادت سامنے آئی خواتین اس کی قیادت کر رہی ہیں ۔ بلوچ سیاست میں انھیں جگہ دی گئی۔ انھوں نے قیادت سنبھالی تو ان کی قیادت کو تسلیم کیا گیا۔ پوری دنیا میں بلوچ تحریک کا ایک نیا رنگ سامنے آیا ۔
بلوچ راجی مچی میں بھی ایسا ہی ہے وہ لوگ کوئی ایسے ڈیمانڈ لے کر آگے نہیں بڑھ رہے تھے کہ ہمیں پاکستان سے آزادی چاہیے، بلکہ بہت سادہ مطالبات ہیں کہ ہمیں جینے کا حق دیں، ہمارے لوگوں کو جبری لاپتہ مت کریں ، ہمارے جو وسائل آپ لوٹ رہے ہیں اس لوٹ مار کو بند کریں ، اور سب سے بنیادی بات جس پر بہت زیادہ غصہ پایا جاتا ہے ہم بلوچوں میں وہ یہ ہے کہ ہماری ڈیمو گرافی کو بڑے شاطرانہ طریقے سے تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ پاکستان خود کنگال ملک ہے اس کے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔دوسروں سے پیسے لیتا ہے پھر جنرلز، کرنلز کے ڈرامے اور جن سے پیسے لیتا ہے ان کو استعمال کرتا ہے۔ چائینہ جو اس وقت ابھرتی ہوئی سامراجی طاقت ہے اس کو ہماری سرزمین پر لا رہا یے ہماری ڈیمو گرافی کو تبدیل کرنے کے لیے ، یہ ہمارے لیے بہت سنجیدہ مسئلہ ہے اور بلوچوں کو نا قابل قبول ہے۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ ( بی ایل ایف) کی جو مسلح جدوجہد ہے اس کا آغاز مکران بلوچستان گوادر سے کیا گیا تھا، گوادر میں چائینہ اہلکاروں پر بم بلاسٹ سے اس کا آغاز ہوا تھا ۔ بی این ایف نے اس کی زمہ داری قبول کی تھی ۔ بعد میں قومی آزادی کی تحریک پوری طرح سے ابھر کر آگے بڑھی اور بڑھ رہی ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ جو موجودہ تحریک بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت میں چل رہی ہے یہ حقوق کی تحریک ہے جس میں کوئی سیاسی مطالبات نہیں ہیں ۔ جیسے پختونخوا میں پشتون تحفظ موومنٹ ہے ان کے بھی سیاسی مطالبات نہیں ہیں۔ لیکن وہاں دیگر سیاسی پارٹیاں پارلیمان کی بات کرتے ہیں ۔ جبکہ بلوچستان میں بی این ایم مکمل آزادی کی جدوجہد کر رہی ہے۔
بی این ایم سیاسی پارٹی ہے جس کے مختلف شعبہ جات ، مختلف حصے ہیں جو کل ملا کر قومی آزادی کی جدوجہد کر رہی ہے ۔ بلوچستان میں دوسری بھی کئی سیاسی پارٹیاں ہیں جو آزادی کی مانگ کرتی ہیں۔ یہ ساری صورتحال ہے۔
بلوچ راجی مچی کے حوالے سے سادہ سی بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ راجی مچی لوگوں کا اجتماع ہوتا لوگ اجتماع کر کہ چلے جاتے اور کچھ بھی نہ ہوتا ۔ لیکن لوگوں پر فائرنگ کی گئی ، لوگوں کو شہید کیا گیا اب تک تین شہادتوں کی تصدیق ہوچکی ہے، ان میں مستونگ کی ہماری ایک مستقبل کے لیڈر ( حمدان بلوچ) شامل ہیں، جس کو انھوں نے شہید کیا ہے، اسی طرح دو اور لوگ گوادر میں شہید کیے گئے۔
گوادر کو مکمل محاصرہ میں لیا گیا ہے ۔ ہم لوگ غزہ کی جو صورتحال میڈیا پر دیکھتے ہیں ، گوادر کی صورتحال غزہ کی اس صورتحال سے بالکل مختلف نہیں ہے۔ گوادر کو مکمل محاصرے میں لیا گیا ہے ۔ لوگوں کو آنے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ بلوچستان کے دیگر دیہاتوں سے لوگ سمندر کے راستے کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انھیں اس کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ ابھی ان کا پانی بھی بند کر دیا گیا ہے۔
یہ ساری صورتحال ہے جو میڈیا پر مکمل بلاک آؤٹ ہے۔