بنگلہ دیش میں حکومت مخالف مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم 90 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ وزیر اعظم شیخ حسینہ ڈھاکہ چھوڑ کر ایک محفوظ مقام پر منتقل ہوچکی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم ڈھاکہ چھوڑ کر ایک محفوظ مقام پر منتقل ہوچکی ہیں۔ جبکہ ذرائع نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ شیخ حسینہ اور ان کی بہن کو ’محفوظ مقام‘ پر لے جایا گیا ہے۔
شیخ حسینہ اس وقت کہاں ہیں، اس حوالے سے صورتحال غیر واضح ہے۔
بنگلہ دیشی وزیر اعظم وقار الزمان کا خطاب کچھ دیر میں متوقع ہے۔ ڈھاکہ سمیت ملک بھر میں فوج کے دستے تعینات کیے گئے ہیں۔
ملک میں طلبہ کی سول نافرمانی تحریک جاری ہے۔ شیخ حسینہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کی طرف لانگ مارچ متوقع ہے جس دوران انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی گئی ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں کم از کم 13 پولیس افسران بھی شامل ہیں۔ پورے ملک میں پُرتشدد واقعات روکنے کے لیے کرفیو نافذ ہے۔
جولائی میں شروع ہونے والا طلبہ کا احتجاج بنیادی طور پر سرکاری نوکریوں میں کوٹا سسٹم کے خلاف تھا مگر یہ جلد حکومت مخالف تحریک میں بدل گیا۔
اب تک بنگلہ دیش کے پُرتشدد واقعات میں کم از کم 280 افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔