بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے جاری بیان میں کہا ہےکہ گزشتہ روز سے اوتھل زیرو پوائنٹ سے گوادر جانے والے مقامی لوگوں کو انتظامیہ کی جا جانب سے روکنا اور اجازت نامہ لینے کا حکم دینا بلوچستان کی کالونیل حیثیت کو واضح کرتا ہے۔ ریاست اور اس کے تمام ادارے آئے روز اپنے ہر ایک اقدام سے مقامی لوگوں پر واضح کر رہے ہیں کہ بلوچستان میں ان کی حیثیت تیسرے درجے کے شہری یا غلاموں جیسی ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ یہ ریاست کے آئین کے کس شق میں لکھا ہے کہ مقامی لوگوں کو اپنے گھروں میں جانے کے لیے اجازت نامہ لینا ہوگا ؟ بلوچوں کو اپنی ہی سرزمین پر پہلے سے سیاسی اجتماع منعقد کرنے کی اجازت نہیں ہے، بولنے کی آزادی نہیں ہے، پریس کلب میں ان کے تالے لگائے جاتے ہیں، میڈیا بلیک آؤٹ ہے، قانونی جنگ لڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ اب بلوچوں کو اپنے گھروں میں جانے کے لیے شاہی انتظامیہ سے اجازت نامہ لینا ہوگا۔ ایسے قوانین بلوچستان میں برٹش کالونیل زمانے میں بھی نہیں تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب ریاست یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ بلوچوں کو اپنی ہی سرزمین سے مکمل طور پر بے دخل کیا جائے ، اس لیے وہ بربریت اور مظالم کی تمام حدود پار کر رہی ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ ریاست کے اس کالونیل نظام اور قوانین کے خلاف بلوچ قوم کے پاس اب ایک منظم مزاحمتی جد و جہد کے علاوہ دوسرا کوئی بھی راستہ نہیں ہے۔ اگر اس فاشسٹ نظام کے خلاف ہم مزید خاموش رہے یا چھوٹے چھوٹے گروہوں کی صورت میں جدو جہد کی ، تو اس سرزمین سے ہماری نام و نشان مٹ جائے گا۔ ہماری قومی بقاء صرف اتحاد و یکجہتی اور منظم مزاحمتی جدو جہد میں ہے۔ ریاست کو اس وقت سب سے زیادہ تکلیف بلوچ قوم کے اتحاد اور یکجہتی سے ہے، جس کی مثال بلوچ راجی مچی ہے۔
ترجمان نے کہاہے کہ اس قومی اجتماع میں جس طرح بلوچ قوم نے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا ، اس سے ریاست کو بلوچستان میں اپنے ظلم اور جبر کے نظام کو قائم رکھنے کے حوالے سے شدید خطرہ محسوس ہوا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک قومی سیاسی اجتماع کو روکنے کے لیے ریاست نے جتنی طاقت اور تشدد کا استعمال کیا، شاید ریاست نے اپنی پوری تاریخ میں ایک سیاسی اجتماع کو روکنے کے لیے اتنی طاقت اور تشدد کا استعمال کیا ہوگا۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچ راجی مچی کے بہادر اور باشعور نو جوانوں کی قربانیوں نے قومی سطح پر وہ شعور اور آگاہی پیدا کی ہے جس کی ثمر بحیثیت قوم ہمیں آنے والے دنوں میں دیکھنے کو ملے گی۔ ہمیں انہی شہیدوں کی قربانیوں کو مد نظر
رکھتے ہوئے اپنے درمیان اتحاد اور یکہتی پیدا کرنا ہوگا اور اس جدو جہد کومزید منظم اور تیز کرنا ہوگا۔