بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ واحد بخش عرف استاد واحد کمبر ولد عالی’ بلوچ قومی تحریک آزادی ‘ کے ایک سرخیل و سرکردہ رہنماء ہیں جنھیں پاکستانی خفیہ اداروں نے 19 جولائی 2024 کو ہمسایہ ملک ایران سے اغواء کے بعد جبری لاپتہ کر رکھا ہے۔ استاد واحد کمبر بلوچ نے اپنی پوری زندگی بلوچستان پر پاکستانی قبضہ اور جبر و استبداد کے خلاف جدوجہد میں گزاری ہے ان کے اغواء اور جبری گمشدگی کے خلاف پوری بلوچ قوم ایک آواز ہے اور ان کی بازیابی اور قانونی حقوق کی فراہمی کا مطالبہ کرتی ہے۔
ترجمان نے کہا ہےکہ استاد واحد کمبر اپنے سیاسی مقاصد میں واضح ہیں اور ان کی جدوجہد کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ جبری قبضہ اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف قومی تحاریک آزادی اور جنگ آزادی سے متعلق عالمی قوانین کے تحت یہ ان کا قانونی اورانسانی حق ہے کہ بطور قیدی منظر عام پر لائے جائیں اور ان کے قانونی و انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔ یاد رہے اس سے قبل بھی استاد واحد کمبر بلوچ پاکستانی فوج کے ہاتھوں ماورائے عدالت گرفتاری ،جبری گمشدگی، ٹارچر اور جھوٹے الزامات و مقدمات میں قید و بند کے غیر انسانی عمل سے گزر کر بری ہوئے تھے اور بری ہونے کے بعد روپوش رہ کر مقبوضہ بلوچستان کی آزادی کے لیے تحریک میں قائدانہ کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
انٹرنیشنل کمیونٹی آف دی ریڈ کراس سے مطالبہ کرتے ہوئے پارٹی ترجمان نے کہا عالمی قوانین جنگی قیدیوں کے حقوق کے متعلق واضح ہیں اس لیے ہم اس سلسلے میں کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ریڈ کراس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ استاد واحد کمبر کو جنگی قیدی کا درجہ دلانے اور ان کے منظر عام پر لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
انھوں نے کہا ہےکہ استاد واحد کمبر ایک عمر رسیدہ بزرگ شخص ہیں۔ ذرائع کے مطابق وہ دل کے امراض سمیت مختلف بیماریوں کے شکار ہیں جس کے لیے ڈاکٹرز کی مسلسل نگرانی اور دوائیوں کی فراہمی انتہائی ضروری ہے۔ ریڈ کراس ان کی فوری بازیابی میں کردار ادا کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ سے ان کی ملاقات ممکن بنائے۔ اس عمل میں تاخیر ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
ترجمان نے کہا ہےکہ بلوچستان پر پاکستانی جبری قبضہ کے خلاف بلوچ قومی آزادی کی تحریک ایک حقیقت ہے جسے قابض پاکستان ہرگز چھپا نہیں سکتا۔ پاکستان بلوچ تحریک آزادی کے مقابلہ میں سیاسی اور جنگی محاذ پر ناکامی کے بعد بلوچ قوم کے خلاف نسل کشی جیسے غیر انسانی حربے استعمال کر رہا ہے۔ عام آبادیوں پر بلا امتیاز بمباری، آبادیوں کا جبری انتقال، گھروں اور املاک کو نذر آتش کرنا، لوگوں کو جبری گمشدہ کرنا، خفیہ اذیت گاہوں میں ٹارچر کرنا، زیر حراست افراد کو ماورائے عدالت قتل کرکے مقتولین کی مسخ لاشیں پھینکنا، جعلی مقابلوں کا ڈرامہ رچا کر زیر حراست افراد کو قتل کرنا پاکستان کے بلوچ نسل کش مجرمانہ اقدامات میں شامل ہیں۔
بی این ایم نے کہاہے کہ پاکستان کی بلوچ نسل کش کارروائیاں مقبوضہ بلوچستان تک محدود نہیں ہیں بلکہ پاکستانی جبر و استبداد اور نسل کشی کے نتیجہ میں نقل مکانی اور مہاجرت کرنے والے بلوچ بھی پوری دنیا میں پاکستان کی ایسے غیر انسانی پالیسوں کا ہدف بنتے رہے ہیں۔ پاکستانی ایجنٹس کے ہاتھوں واحد کمبر بلوچ کے اغواء کے حالیہ واقعہ سے پہلے بی ایس او آزاد کی سابق چیئر پرسن لمہ کریمہ بلوچ کو کینیڈا میں، معروف بلوچ صحافی ساجد حسین کو سویڈن میں، بالاچ مری، استاد اسلم بلوچ، چنکا میر عبدالنبی بگلزئی، انجینئر عبدالرازق بلوچ سمیت متعدد بلوچ قائدین اور مہاجرین کو افغانستان میں پاکستانی ایجنٹ ہدف بنا کر شہید کرنے کے جرم کا مرتکب ہوئے ہیں۔اسی طرح ہمسایہ ملک ایران کے انتظامی حدود کے اندر بھی اب تک درجنوں بلوچ پاکستانی ایجنٹس کے ہاتھوں شہید کیے گئے ہیں جن میں شمِ سر میں ایرانی انتظامی حدود کے اندر بی این ایم کے رہنماء دوستا بلوچ سمیت دیگر بلوچوں کے گھروں پر میزائل حملے میں دوستا بلوچ سمیت خواتین اور بچوں کی شہادتیں بھی شامل ہیں۔
ترجمان نے آخر میں کہا ہےکہ پاکستان ہمسایہ ممالک سمیت دنیا بھر میں بلوچوں کے خلاف ایسے مجرمانہ حربے استعمال کر رہا ہے تاکہ بلوچ تحریک کے سرخیل قیادت کا خاتمہ کرکے تحریک آزادی کو دبا سکے۔ جنگی قوانین و اصولوں اور انسانی حقوق کے منافی پاکستان کے اس پالیسی کو کسی بھی طرح سے جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ انسانیت کے خلاف ریاست پاکستان کے جرائم ہیں جن پر اس کا عالمی سطح پر محاسبہ ہونا چاہیے۔