گوادر بلوچ لاپتہ نہیں ریاستی تحویل میں ہیں، شال مظاہرین پر پولیس تشدد کیخلاف ریلی سے مقررین کا خطاب

 


کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے نکلنے والی پرامن ریلی پر تشدد و خواتین کی بے حرمتی کے خلاف گوادر میں حق دو تحریک کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی نکالی گئی۔

ریلی جاوید کمپلیکس سے شروع ہوا جس میں خواتین اور بچوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی، ریلی میں لوگوں نے جبری گمشدگی کے خلاف شدید نعرہ بازی کی۔

ریلی نے مکی مسجد کے مقام پر جاکر جلسے کی شکل اختیار کرلی جہاں رہنماوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

رہنماؤں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست اپنے عوام کی عزت اور آبرو سے کھیل رہی ہے۔ یہ کیسے اسلام کے نام پر بننے والی ریاست ہے جہاں ظلم کے خلاف بولنے والے لوگ لاپتہ ہوجاتے ہیں اور انکی مسخ شدہ لاش ملتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاست بلوچستان میں جو کھیل کھیل رہی ہے جس سے ریاست مستحکم نہیں رہ سکتی۔

مقررین نے کہاکہ کہا جاتا ہے بلوچ لاپتہ ہیں جبری گمشدگی کے شکار ہیں بلوچ لاپتہ نہیں ریاستی اغواء کاری کے شکار ہیں اسے آپ لاپتہ نہیں کہہ سکتے۔ لاپتہ اسے کہا جاتا ہے جو کہیں جاکر لاپتہ ہوتا ہے مگر ہمیں پتہ ہے ہمارے لوگوں ریاستی تحویل میں ہیں اسے آپ لاپتہ نہیں کہہ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جنتے بھی لوگ ریاستی تحویل میں ہیں وہ سب بیگناہ ہیں، کیونکہ ایک ہوتا ہے ملزم اور مجرم ہے ملزم پہ الزام ہوتا ہے جبکہ مجرم وہ ہوتا ہے جس پہ جرم ثابت ہوتا ہے جبکہ لواحقین تو یہی کہہ رہے ہیں اگر کسی کوئی الزام ہے اس کو اپنے عدالتوں میں پیش کرکے ثابت کریں۔

انہوں نے ریاست کی آنکھیں بلوچ ساحل اور وسائل پہ ٹکی ہوئی ہے۔ مگر جب تک ایک بلوچ زندہ ہے آپ کی یہ خواب پورا نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری عزت و ناموس پر آتھ ڈالنے کے بعد یہ توقع رکھنا کے کوئی زندہ باد کہے گا۔ جو زندہ باد کہے اس پر بھی لعنت ہے۔

مقررین نے کہا کہ برطانیہ نے جو پالیسی “تقسیم کرو اور حکومت کرو” ان پہ استعمال کی ہے اب وہ یہی پالیسی ہم پہ استعمال کررہے ہیں ہمارے لئے کچھ نہیں بچا ہے اتحاد کے علاوہ ہم تمام بلوچوں کو کہنا چاہتے ہیں ایک ہوجائیں۔

انہوں نے کہاکہ ریاست بزور طاقت ہمیں پرتشدد ہونے کی سازش کررہا ہے مگر ہمیں پرامن رہنا ہے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post