بلوچستان بھر میں بی وائی سی کے کارکنان پرامن اور منظم انداز میں دھرنا دیں، احتجاجی ریلیاں نکالیں اور پہیہ جام اور شٹرڈاؤن ہڑتال کی جائے۔ پریس کانفرنس

 


گوادر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی  رہنماوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اس وقت مکمل ایک جنگ زدہ خطہ بن چکا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی 28 جولائی کو گوادر میں ایک قومی اجتماع کا اعلان کیا تھا۔ 20 جولائی سے ریاست پاکستان نے بلوچ قومی اجتماع کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔ ریاست پاکستان اپنے تمام مشینر ی اور طاقت اس پر امن عوامی اجتماع (بلوچ راجی مچی ) کو روکنے کے لیے استعمال  شروع کی جو تاحال جاری ہے  اور بد ترین انسانی حقوق کی پامالیوں کا مر تکب ہو رہی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے 28 جولائی کو گوادر میں بلوچ قومی اجتماع کا انعقاد کا اعلان کیا گیا تھا۔ ریاست پاکستان نے بلوچ قومی اجتماع کو روکنے کے لیے 26 جولائی سے ہی گوادر سمیت قریب وجوار کے تمام علاقوں میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر دیا جو تاحال جاری ہے۔ 26 جولائی سے گو اور سمیت مگر ان کے بیشتر علاقوں میں انٹر ریے مکمل طور پر بند ہے۔

آج بھی گوادر میں نہ کسی کو اندر جانے کی اجازت دی جارہی ہے اور نہ باہر آنے کی اجازت دی جارہی ہے۔

28 جولائی کے دن جب گوادر شہر کے عوام ریاستی دہشتگردی، طاقت اور خوف کے سامنے پر امن طور پر ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل کر بلوچ راچی مچی کے لیے پہنچے  تو ریاستی فوج نے پر امن شر کا پر اندھادھند فائرنگ کی جس سے ایک نوجوان موقع پر ہی شہید ہو گیا اور سات زخمی ہو گئے جن میں دو کی حالت اب بھی خطرے میں ہے۔ اس وحشت اور درندگی کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں بلوچ راجی مچی کے شرکاہ پر امن رہے اور راجی مچی کو دوبارہ جاری کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہاکہ اس ریاستی دہشتگردی کے خلاف بلوچی یکجہتی کمیٹی نے بلوچ راجی مچی کو دھرنے میں تبدیل کیا اور دھرنے کے دو مطالبات رکھے۔ ایک ، بلوچستان کے تمام شاہراہوں کو کھول کر بلوچ راجی مچی میں شرکت کرنے والے تمام قافلے جو اس وقت ہزاروں کی تعداد میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں زبر دستی روکے گئے ہیں ، انہیں با حفاظت گوادر آنے کی اجازت دی جائے۔

 دوسری، بلوچستان کے جن جن علاقوں  سے راجی مچی کے شرکاء کوگرفتار کیا گیا ہے، انہیں رہا کیا جائے ۔ لیکن طاقت اور وحشت کے غرور میں غرق ریاست اور اس کے اداروں نے ہر طرف سے دھر ناگاہ کو گھیر کر لیا  مطالبات سننے کے بجائے 29 جولائی کی صبح ریاستی فوج نے چاروں طرف سے خواتین اور بچوں پر حملہ آور ہوئے جس میں خواتین و بچوں سمیت متعد د شر کا ء زخمی ہوئے۔

 وحشت اور درندگی کی کھیل میں اپنے کارندوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ۔ جی ڈی اے ہسپتال گوادر کو سیل کر دیا گیا اور وہاں کسی بھی  مریض کو لے جانے والے گاڑی  نظر آتی انھیں وہیں  گرفتار جاتا ، راجی بچی کے لیے اسٹیج کے طور پر استعمال ہونے والے ٹرک کو جلا دیا گیا اور نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے بعد گوادر کے گھر گھر میں چھاپے مارے گئے ، لوگوں کی گاڑیاں اور قیمتی سامان کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ نیشنل پارٹی کے رہنما اشرف حسین سمیت سینکڑوں لوگوں کو ان کے گھروں سے جبری گمشدہ کیا گیا۔ جولائی کی رات کو جس وقت دھرنا جاری تھا وہاں ریاستی خفیہ اداروں نے ڈیتھ اسکواڈ کے دو مسلح کارندوں کو دھرنے میں بھیج کر بلوچ پجہتی کمیٹی کی لیڈرشپ کو نشانہ بنانے کی ٹاسک دی تھی لیکن خوش قسمتی سے وہاں موجود عوام نے ان کی شناخت کی تھی کہ یہ ڈیتھ اسکواڈ کے لوگ ہیں جس پر دھر نا منتظمین نے ان کی تلاشی لی تو ان سے پستول ، واکی ٹاکی اور شناختی کارڈ برآمد ہوئے، جس نے اپنے ویڈیوں میں اعتراف کیا کہ گوادر میں 28 جولائی کی صبح سے اس وقت 48 گھنٹے سے زائد کا وقت گزر اور مجھے یہاں بلوچ راجی بچی کے لیڈر شپ کو مارنے کی ٹاسک دی گئی تھی۔

پریس کانفرنس  کہاکہ ہمیں اب بھی  ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں سنگین خدشات لاحق ہیں۔ سب سے خطر ناک بات یہ ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو گرفتار کیا گیا ہے اور پولیس و انتظامیہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کی گرفتاری کو ظاہر نہیں کر رہی ہے جس کے زندگیوں کو متعلق ہمیں شدید خدشات لاحق ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت اور سینکڑوں شرکا کو گرفتار کر کے بلوچستان حکومت د ریاست ایک سنگین جرم کا مرتکب ہو رہی ہے جس کے رد عمل اور نتائج کا انہیں ذرہ برابر بھی اندازہ نہیں 

انھوں نے کہاکہ بلوچ راجی مچی کے لیے بلوچستان کے مختلف علاقوں کے قافلے کوئٹہ میں یکجا ہو کر 27 جولائی کی صبح کو گوادر کے لیے روانہ ہوئے۔ کوئٹہ سے روانہ ہوتے ہی انہیں  ریاستی فوج کی جانب سے روکنا شروع کیا گیا اور رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ قافلے میں تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے عوام نے رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے مستونگ پہنچ گئے۔ مستونگ میں ریاستی فوج نے قافلے پر سیدھی فائرنگ کی، جس سے 14 شرکاء زخمی ہو گئے اور تین کو گولیاں سر پر لگیں۔ وہ اس وقت شدید زخمی حالت میں ہیں اور کوئٹہ ٹراما سینٹر میں زیر علاج ہیں۔ اس کے بعد فوج نے قافلے کی تمام گاڑیوں کے ٹائروں کو برسٹ کر دیا جس سے تمام گاڑیوں کے ٹائر ناکارہ ہو گئے، جبکہ سیدھی فائرنگ کی وجہ سے تمام گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ چکےہیں۔ بلوچ قومی اجتماع کے لیے جانے والے قافلے کے ہزاروں لوگ گزشتہ پانچ دن سے ستونگ میں دھر نادیے بیٹھے ہیں ۔ 

تلار گوادر سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں ریاستی فوج کا بہت برا کیمپ اور چیک پوسٹ ہے۔ بلوچ راجی مچی میں شرکت کرنے والے وہ تمام قافلے جو تالار پہنچ چکے ہیں، انہیں 26 جولائی سے تلار چیک پوسٹ پر روکا گیا ہے۔ اس وقت سینکڑوں گاڑیوں پر مشتمل  راچی مچی میں شرکت کرنے والے لوگوں کو  تلار چیک پوسٹ پر بندوق کے زور پر یر غمال بنایا گیا ، ۔ تلار سے واپس آنے والے لوگوں نے ویڈیوز اور فوٹیجز بنائی ہیں جو جس میں دکھایا گیا ہے کہ کسی طرح ریاستی فوج لوگوں پر تشدد کر رہی ہے، سیدھی فائرنگ کر رہی ہے اور آنسو گی گیس داغ ر ہےہیں ۔ جس سے متعد د لوگ زخمی اور دو لوگ شہید ہونے کی اطلاعات ہیں۔ 

 انٹر نیٹ اور موبائل نیٹ ورک بند ہونے کی وجہ سے ہمیں زخمیوں اور نقصانات کی مکمل تفصیلات نہیں پہنچ رہی ہیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ وہاں حالات شدیدخراب ہوں گے اور راجی بچی کے ہزاروں شرکاء کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ ہمیں ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ بلوچ راجی مچی میں شرکت کرنے کے لیے کراچی اور حب کے قافلے 27 جولائی کی صبح روانہ ہوئے تھے لیکن انہیں کراچی یوسف گوٹھ اور حب بھوانی کے مقام پر روکا گیا تھا۔ تقریباً 12 سے 14 گھنٹے بعد انہیں جانے کی اجازت دی گئی لیکن 200 کلو میٹر ز کے بعد ہنگول بزی ٹاپ کے مقام پر انہیں دوبارہ روکا گیا ، شرکاء پر فائرنگ کی گئی اور تشدد کیا گیا جبکہ تمام گاڑیوں کے ٹائر برسٹ کیے گئے اور انہیں آگے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس قافلے میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے جو ایک رات ہنگول میں گزارنے کے بعد

واپس او تھل زیرو پوائنٹ آگئے۔ ایک دن انہوں نے وہاں دھر نادیا اور کل انہوں نے گڈانی کر اس پر دھر نادیا۔ 

پریس کانفرنس میں کہاکہ بلوچ راجی مچی کو ناکام بنانے کے لیے گزشتہ ایک ہفتے سے بلوچستان کے متعدد علاقوں میں راجی مچی کی تیاریوں میں مصروف پر امن کارکنان کے گھروں میں چھاپے مارے گئے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے اس وقت سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن کے متعلق ہمیں کوئی معلومات فراہم نہیں کی جارہی ہیں۔ ہمارے معلومات کے مطابق 150 سے زائد لوگ اس وقت بدہ جیل کو ئٹہ میں غیر قانونی طور پر بند ہیں لیکن ہمیں ان کے متعلق بھی کسی قسم کی معلومات نہیں دی جارہی ہیں۔ جبکہ بلوچستان کے متعدد علاقوں میں پر امن کارکنان پر در جنوں جھوٹی ایف آئی آر ز درج کی گئی ہیں۔

انھوں نے کہاکہ گزشتہ 72 گھنٹوں سے زائد وقت بیت چکا ہے جس میں  پورا بلوچستان جنگ زدہ ہے، لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے نام نہاد مین اسٹریم کے صحافی اور صحافتی ادارے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور صحافتی شعبے کے لیے انتہائی شرم کا مقام ہے کہ چند ایک حقیقی صحافیوں کے علاوہ کوئی بھی نام نہاد مین اسٹریم صحافی اور میڈیا نے اس انتہائی سنگین مسئلے پر ایک لفظ بھی نہیں بولا ہے۔ تمام نام نہاد مین اسٹریم کے صحافی خاموش ہیں اور اس کے بر عکس قاتلوں اور جابروں کو اپنے ٹاک شوز میں دعوت دے کر مظلوموں کے موقف کو سامنے لانے کے بجائے ظالموں کے موقف کو سامنے لا رہے ہیں۔ بلوچستان کے معاملات پر پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا اور صحافی بھی ریاست اور ریاستی نمائندوں کے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اگربلوچستان کے متعلق صحافتی اداروں کارویہ یہ رہا تو ہم بلوچستان میں مقامی پرنٹ میڈیا کے علاوہ باقی تمام نام نہاد مین اسٹریم کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا مکمل طور پر بائیکاٹ کریں گے۔

ہم اس وقت بلوچستان کے سنگین انسانی حقوق کی صور تحال پر تمام بین الاقوامی صحافتی اداروں اور صحافیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ صحافتی اقدار اور اصولوں کا احترام کرتے ہوئے بلوچستان کے جنگ زدہ حالات، گوادر میں مکمل کرفیو کے نفاذ اور ریاستی پاکستان کے بربریت اور مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں اور بلوچستان کو کوریج دیں۔

انھوں نے کہاکہ تلار چیک پوسٹ کے تازہ ترین مناظر میں ایک دلخراش منظر دکھایا گیا ہے جہاں فورسز کو بلوچ قومی اجتماع کے شرکاء پر براہ راست فائرنگ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔  اس وحشیانہ حملے کے نتیجے میں تین سے زیادہ شرکاء کی المناک موت ہوئی، 50 سے زیادہ زخمی ہوئے، اور تقریباً 230 گاڑیوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔  بلوچ قوم شدید اور بڑھتے ہوئے جبر کو اجاگر کرتے ہوئے فورسز کے خطرناک کریک ڈاؤن کو برداشت کر رہی ہے۔

آخر میں ہم ریاست اور اس کے تمام اداروں کو واضح کرتے ہیں کہ فوراً بغیر کسی اگر و مگر کے ہمارے لیڈرشپ سمیت تمام گرفتار ساتھیوں کو رہا کریں، گوادر سمیت مکران بھر میں انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک کو بحال کریں اور بلوچستان کے تمام علاقوں میں زبردستی بندوق کے زور پر روکے گئے ہمارے تمام قافلوں کے سامنے سے پوری طور پر رکاوٹیں دور کریں۔ اگر ریاست اور اس کے اداروں نے اب بھی اپنے دہشتگردانہ اور جابرانہ رویے کو تبدیل نہیں کیا تو آج سے ہم غیر معینہ مدت تک کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان کو بند رکھیں گے اور دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو اس کی تمام تر ذمہ داری ریاست اور اس کے اداروں پر عائد ہوگی۔

ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے بلوچستان بھر میں بی وائی سی کے کارکنان اور بلوچ عوام کو مطلع کرتے ہیں کہ بلوچستان  بھرمیں پرامن اور منظم انداز میں دھرنا دیا جائے، احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں اور پہیہ جام اور شٹرڈاؤن ہڑتال کی جائے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post