کوئٹہ جبری لاپتہ ظہیر احمد کے لواحقین نےجاری تردیدی بیان میں کہا ہے کہ لاپتہ ہونے سے قبل ظہیر بلوچ پندرہ سالوں سے اپنے سرکاری دفتر میں کام کرتا رہا، جس کا ثبوت سرکاری دفتر کی حاضری رجسٹر میں موجود ہے ۔
ظہیر احمد کی اپنے سرکاری نوکری پر موجودگی کا ثبوت دفتر میں موجود ہے جبکہ اس کے دفتر میں کام کرنے والے کسی بھی شخص سے اس حوالے سے پوچھا جاسکتا ہے۔
لواحقین نے مزید کہا ہےکہ دروغ گوئی سے حقائق مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالاں کہ انھیں دن دہاڑے شال سے لاپتہ کیاگیا۔ ہم پچھلے بارہ روز سے احتجاجی دھرنا دیئے ہوئے ہیں لیکن ظہیر احمد کے گمشدگی کی ایف آئی آر درج نہیں کی جارہی ہے جبکہ گذشتہ روز پرامن مظاہرین پر پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس شیلنگ کی گئی ، جبکہ مظاہرین پر تشدد کے بعد دروغ گوئی سے حقائق مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے بیان کے آخر میں کہا ہےکہ ہمارے پیاروں کو لاپتہ کرنے کے بعد ہم سے پرامن احتجاج کا حق بھی چھینا جارہاہے
۔لواحقین نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہےکہ ظہیر احمد کی باحفاظت بازیابی تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔
دوسری جانب سیاسی سماجی حلقوں کا کہنا ہے وزیر داخلہ بلوچستان خود کھٹ پتلی وزیر ہیں، انھیں جو اسکرپٹ جی ایچ کیو کوئٹہ سے تیار ملتی ہے وہ اسے من وعن پڑھ لیتے ہیں۔ انھیں کوئی اختیار نہیں کہ وہ فوج خفیہ اداروں کے خلاف لب کشائی کر سکیں ۔
جبری لاپتہ ظہیر کے بارے میں خفیہ ایجنسیوں نےجو لکھا تھا وہی طوطے کی طرح دھرا کر ٹی اے ڈی اے بل بنواکر رفو چکر ہوگیا ۔
