خضدار سے انیس بلوچ اور شال سے طلباء کی جبری گمشدگی افسوس ناک ہے ۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد

 


‏بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کے ترجمان نے اپنے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہاؤالدین یونیورسٹی ملتان سے فارغ التحصیل اور بلوچ سٹوڈنٹس کونسل ملتان کے سابقہ چیئرمین طالبعلم انیس بلوچ کی انکے آبائی علاقے خضدار سے جبری گمشدگی ایک تشویشناک عمل ہے۔ 


انھوں  نے کہا ہےکہ کل رات آٹھ بجے کے وقت انیس بلوچ کو ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے انکے آبائی علاقے خضدار سے جبراً لاپتہ کیا۔ انیس بلوچ بہاؤالدین یونیورسٹی ملتان سے شعبۂ کمپیوٹر سائنس سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں اور بلوچ سٹوڈنٹس کونسل ملتان کے سابقہ چیئرمین بھی رہے ہیں۔ 


اس سے قبل گزشتہ ہفتے اے ون سٹی شال سے چھ کمسن بلوچ طلباء کو جبراً گمشدہ کیا گیا، بعد اَزاں ان میں سے پانچ طلباء کو رہا کردیا گیا سوائے فاروق بلوچ کے کہ جسے ابھی تک رہا نہیں کیا گیا۔  اسی بناء پر فاروق بلوچ کی فیملی دیگر جبری گمشدگان کی فیملیز کے ساتھ تربت میں دھرنا دئیے بیٹھے ہیں۔ اسکے علاوہ فاروق بلوچ کے لواحقیں نے پیر کے دن ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کے دپتر کے سامنے احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھ گئے جس کو دوسرے دن اس بنیاد پر ختم کیا گیا کہ ہائی کورٹ نے ایس اوچ او کو دو دن کے اندر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا۔ 


ترجمان نے کہا ہے کہ ریاست اور اسکے زِیردست ادارے طالبعلمی جیسے مقدس عمل اور اُس سے مرتبط افراد کو اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بنارہے ہیں اور اپنی تعلیم و علم دشمنی پر کاربند رہتے ہوئے بلوچ طلباء کو انکے حقِ تعلیم و تعلّم سے محروم کیے ہوئے ہیں۔ 


اور یہ بات روزِ اول سے ہی واضح ہے کہ بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیاں بلوچ نسل کشی کا ہی تسلسل ہے۔ ریاست ایک منظم پالیسی اور باقاعدگی کے ساتھ بلوچ طلباء کو جبراً گمشدہ کرتی جارہی ہے۔ جسکی تازہ مثال گزشتہ چند ہفتوں میں کثیر تعداد میں بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیاں ہیں۔ 


ریاست جبری گمشدگیوں کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر بلوچ قوم اور نوجوانوں کے لئے خوف و دہشت کا ماحول بنانا چاہتا ہے۔ اسی توسط سے بلوچ طلباء کو جبراً گمشدہ کررہی ھے کہ جس پالیسی کے تحت بالمثال اگر دس طلباء کو جبراً گمشدہ کیا جاتا ہے تو بعد ازاں چند طلباء کو رہا کردیا جاتا ہے تاکہ جبری گمشدگیوں کو بلوچ معاشرہ میں نارملائز اور معمول کی طرح بنادیا جائے۔ اور جبری گمشدگیوں جیسے ایک حقیقی مسئلہ کو پیچیدہ اور مبہم بنایا جاسکے۔ 


ترجمان نے کہا ہے کہ اس دفعہ فاروق اور انیس کو جبراً لاپتہ کیا گیا ہے بارِ دیگر کسی اور طالبعلم کو جبراً لاپتہ کیا جائے گا۔ ریاست کی اس نسل کُش پالیسی کیخلاف ہم سب کو قومی سطح پر مقابلہ کرنا ہوگا۔ لہٰذا ہم باشعور بلوچ قوم اور نوجوانوں سے ملتمس ہیں کہ وہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لئے ہر فورم اور سطح پر آواز اٹھائیں۔ اسی مناسبت سے آج رات سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر فاروق اور انیس بلوچ سمیت دیگر ہزاروں بلوچ طلباء کی بازیابی اور جبری گمشدگیوں کیخلاف ایک مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس مہم میں حصہ لے کر متاثرہ خاندانوں کی آواز بنیں کیونکہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف خاموش بیٹھنے میں کوئی راہِ نجات نہیں ہے بلکہ راہِ نجات صرف مزاحمت  میں ہے۔


بیان کے آخر میں ترجمان نے کہاہےکہ بلوچ سٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد، بلوچ سٹوڈنٹس کونسل پنجاب کیطرف سے جاری کردہ احتجاجی سلسلوں  کی مکمل حمایت کرتی ہے، جس کے مطابق پنجاب کے مختلف شہروں میں رواں ہفتہ کے مختلف اوقات میں احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔اسی سلسلے میں بروز ء ہفتہ  8 جون  کو بی ایس سی اسلام آباد کی طرف سے نیشنل پریس کلب اسلام میں ایک احتجاج ریکارڈ کیا جائے گا۔ ہم تمام انسانیت پسند سوچ رکھنے والوں سے گزارش کرتے ہیں کہ ان مظاہروں میں شریک ہو کر شناخت اور بقاء کی اس جنگ میں ہمارا ساتھ دیں۔



Post a Comment

Previous Post Next Post