آج بھی سردار عطاء اللہ خان کے وہ الفاظ کانوں میں گونج رہے ہیں، جنھوں نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاتھا کہ اگر آپ کو بلوچستان کے آزادی کیلے لڑنا ہے تو جم کر لڑو ورنہ اپنے والدین کو مت رلاو ۔
یہ الفاظ راقم کی طرح دوسرے مکتب فکر کے لوگوں نے بھی سنا پڑھا ،اور ان پر کھل کر تنقیدی مضامین بھی لکھے ہونگے ، ان میں راقم بھی شامل تھا ،جنھوں نے دوسروں کی طرح ان کے لفاظ کا مفہوم ناتجربہ کاری کی وجہ سے مکمل نہیں سمجھا یا اس میں وہ علمی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ الفاظ کا معنی سمجھ پاتے ،دیر آید درست آید اگر تھوڑی بہت اب اگر سمجھ آئی گئی ہیں تو وہ اس کے بعد کے تجربات اور مراحلہ ہیں جس سے راقم گزرکر ٹھوکریں کھائیں اور سامنا کر رہے ہیں۔
بعض کہے گئے الفاظ ایسے ہوتے ہیں ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انکے اثرات منافع اور نقصان کی شکل میں آنا شروع ہوجاتے ہیں ۔
اب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ حقیقت میں جو انھوں نے کہا تھا وہ ہمارے آنے والے نسلوں کے فائدے کیلے کہئے تھے ، یہ اور بات تھی بعض تو انکے کہنے کا مطلب نہیں سمجھے اور بعض نے سمجھ کر اپنی مکاری سی ان الفاظ کے غلط مطلب نکال کر اس جملے کو سرداری نوابی کے کسوٹی پر پرکھا تاکہ وہ اپنی کشکول کی مستقبل کو مضبوط کر سکیں۔
وہ تو کشکول بھرنے کی لالچ میں اندھے ہوگئے اور ہم میں سے کسی نے بھی انھیں آنکھوں کی علاج کرنے کی صلاح نہیں دی ۔ اور نہی یہ یاد دلانے کی کوشش کی کہ سردار نواب ظالم، حکمرانوں کے دم چلے تو ہیں ہی ، وہ اپنی اپنی قبیلہ اور ہمسایوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں جنھیں باقاعدہ انکے آقا نے صدیوں سے اس کیلے تیار کر رکھا ہے مگر آپ جو قوم کے نام پر چورن بیچ رہے ہیں یہ قوم کا وطن کا سودا نہیں ہے ۔ آپ کی لالچ کی وجہ سے وہ سب کچھ جا سکتا ہے جو ہاتھ میں ہے ۔
مگر ہم نے بدقسمتی سے موقع پرستوں کے ہاں میں ہاں ملاکر یہ سفر بیسویں صدی سے اکیسویں صدی کو منتقل کردیا ،مگر انھیں سوائے کشکول کو مضبوط کرنے اپنی طرح سب کو بھکاری بنانے کے اور گر نہیں سکھائے بس مانگنے میں ماہر بنائے جارہے ہیں ۔
اب اکیسویں صدی کے نسل کو یہ پرکھنا ہوگا کہ بیسویں صدی کے مڈل متوسط طبقہ جن میں مڈل سے بھی نیچی زندگی گزارنے والے وہ فٹ پاتھی لوگ بھی شامل تھے جنھوں نے ابتداء میں پارلیمنٹ پرستوں کے گود میں بیٹھ کر مکاری کے ہنر سیکھی ،بعد میں آکر ہر تنظیم ،پارٹی سوشل سماجی تنظیموں میں شامل ہو کر انھیں ہی یرغمال بنادیا ،جو آزادی کی چنگاری کو ایندھن دے رہے تھے ۔ اس مکار طبقے نے ہر اس طاقت کو توڑ دیا جو آپ کو باشعور بنانے میں کردار ادا کر رہے تھے ۔ یہ سفر یہاں نہیں رکا یرغمالی طبقہ نے نہ صرف سیاست ،بلکہ ،ادب ،ثقافت ،زبان ،
رسم رواج سمیت ہر اس شعبہ پر قبضہ کرلیا ، جہاں سے سماج میں انسان بننے کی امید کی چنگاری نکلتی تھی۔
قابض ملک کی ظلم اور اپنوں کی لالچ نادانی کی بیج نے اکیسویں صدی کے نسل کیلے علم کے دروازے بند کر دیئے ہیں ، وہ اس طرح کہ نادان دوست کی ذاتی لالچ علاوہ ، اس کے پاس آپ کیلے کوئی واضح پالیسی نہیں ، یا دینا نہیں چاہتا، آپکے راز انکے ہاتھوں محفوظ نہیں کہ آپ کسی بھی شعبہ میں تعلیم جاری رکھ سکیں، اور اگر کوئی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو اسے قابض ملک کے آلہ کار اٹھاکر جبری لاپتہ کردیتے ہیں۔ اگر آپ ان سب سے بھاگیں تو آپ کو عالمی قوانین اجازت نہیں دیتے کہ آپ نوعمر نابالغی میں ہتھیار اٹھاکر اپنے حق کیلے لڑ سکیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنے والی نسل اس بھنور سے نکلنے کیلے کرے تو کیا کرے ، کیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھ کر بیٹھ جائیں، ایسا ہر گز نہیں ہے ۔
آپ کیلے ایک ایسا سنہرا دروازہ کھلا ہے جسے نہ نادان لالچی خود غرض آستین کے سانپ ،دوست، رشتہ دار اور ساتھی روک سکتے ہیں، نہی قابض ریاست کے کارندے اور دیگر طاقتیں جو آپ کے وسائل زمین پر آنکھیں جمائے ہوئے ہیں۔ آپکو مقصد کے پانے سے ہٹا سکتے ہیں۔
آپ جدید ٹیکنالوجی کے مدد سے وہ سب حاصل کر سکتے ہیں جو آپ کا انسانی بنیادی حق ہے ، یہاں آپ کو نام نہاد ملک ،پارٹی ، سرحدی لکریں ذات پات ،نام نہاد قومپرستی کے دعویدار اور مذہبی گد روک نہیں سکتے ۔
آپ اس کے ذریعے کامیاب سیاستدان ، معیشت دان ، سائنسدان، ادیب دانشور ، بلاکا جنگجو، جاسوس۔ کاروباری شخصیت ، ڈاکٹر، انجینئر ، غرض جہاں جس شعبہ میں چاہیں مہارت حاصل کرکے آزاد بلوچستان کا خواب پورا کرسکتے ہیں ،جو ہر غلام قوم کی بنیادی حق اور خواہش ہے ۔
علم اور گزشتہ چار ناکام جنگوں سمیت جاری پانچویں جنگ کے تجربات ذریعے آپ دشمن کی چال ،اپنوں کی خود غرضی لالچ غداری ،اقربا پروری ، اور قوم کی خون کا سودا کرنے والے مگر مچھوں کو روک سکتے ہیں۔
آپ بحییت غلام قوم ، ہر فرد ایک لمحے کیلے اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور اپنی ضمیر سے پوچھیں کیا ، ہم حقیقی سیاستدان ، ادیب ، سائنسدان ، مشہور کھلاڑی ، آرٹسٹ ، یا دیگر شعبوں میں کام کرہے ہیں یا کریں گے ، ہم کم از کم 70 فیصد اس شعبہ کا حق اد کرنے کے لائق ہیں ، اگر نہیں ہیں تو اس کے اسباب اور ان کا تدارک کیسے کیا جاسکتا ہے ؟
آپ بیسویں صدی کے اپنے سماج نظر دوڑائیں جہاں خانہ پری کی گنجائش نہیں ہے ، مگر ہمارے ہاں ہر شعبہ میں خانہ پری کا راج ہے ۔
اس لیے ماہروں کا کہنا ہے کہ نیم حکیم خطرہ جان نیم ملا خطرہ ایمان ۔
یہاں نیم سیاستدان غلامی کو مضبوط اور نامکمل ادیب تاریخ کو مسخ کرنے کا باعث بن رہے ہیں ۔ بقیہ شعبوں کا حال بھی یہی ہے ۔
نوجوانوں کو خانہ پری کرنے والے ابن الوقتی گدوں کو قوم کے ساتھ اس کھیل سے روکنا ہوگا ، یقیقنا اس کھیل کو روکنے کیلے آپ کو محض خود کش نہیں بلکہ بلوچستان کی جغرافیہ ،ہمسایہ ممالک ،
قابض ملک سمیت ان طاقتوں کا پریکٹیکلی عمل کا مطالعہ کرنا ہوگا جو پس پردہ آپ کے سرزمین پر قابض ہیں یا آگے سوچ رہیں ، ان سب کے توڑ کیلے آپ کو اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا ۔
آپ کو معلوم کرنا ہوگا قابض ملک نے آپ کو کب کب اور کس کس کے ہاتھ گروی رکھا ہوا ہے ؟ اور مزید رکھ رہا ہے ؟ قابض ملک کا لگام کس کے ہاتھ میں ہے ؟ انھوں نے آپ کو خرید نے کیلے کیا دام رکھا ہے ؟
جب یہ سب جوابات ملیں گے تو آپ کو حل مل جائے گا کہ طوق غلامی کے لعنت سے کیسے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے ۔
اگر اس سب کیلے آپ کے پاس سوچنے کا وقت اور کرنے کی ہمت نہیں ہے تو وہی سردار کی بات ہے پھر اپنےوالدیں کو کو مت رلائیں ۔
قابض آپ کا ملک چھین رہاہے چھیننے دو ، قوم کے خون پسینہ پر جو سوداگر بیٹھ کر سودا کر رہے ہیں کرنے دیں ،جو شہیدوں کے بچوں کو سیڑھی بناکر کشکول بھر رہے ہیں بھرنے دیں ، جو آپکو فٹ پاتھ پر بھوکا پیاسا رکھ کر ، اپنے لیے ذاتی بلڈنگ کارخانے بنا رہے ہیں بنانے دیں ۔ جو ذاتی شہرت حاصل کرنے کیلے آپکو سیڑھی بنا رہے ہیں بنانے دیں ۔
یا جو دو وقت کی روٹی کیلے آپ کے بچوں کو نام نہاد چیک پوسٹوں پر روک کر تپتی گرمی میں ننگے پاوں ریت پر دوڑاتے ہیں دوڑانے دیں۔
آپ کا آنے والا نسل علم سے محروم رہ کر پوری قوم کو جہالت کی طرف دھکیل رہا ہے دکھیلنے دیں۔ جو جبری لاپتہ اور جعلی مقابلوں میں مارے جارہے ہیں ، لاپتہ ہونے اور مرنے دیں ۔ اجتماعی قبروں اور لاوارث میتوں کی تعداد بڑھنے دیں۔ کیوں کہ غلامی قبول کرچکے ہو کہ آپ غلام ہو، اپنی غلامی پر شکر منا کر قبول کرلیں۔ کسی سے کوئی سوال کوئی جواب نہیں ہے۔