جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5467 دن ہو گئے ہیں ۔
اظہارِ یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او کے مرکزی عہدیداروں شکور بلوچ نزیر بلوچ مقبول بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی ۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے مخاطب ہو کر کہا کہ بلوچستان میں ریاستی ظلم جبر کا راج مسلسل قائم ہے اور فوجی اپریشن تواتر کے ساتھ جاری و ساری ہے فورسز نے جب بھی جہاں چاہے بلوچ کے خلاف آپریشن کے نام پر سول آبادی کو نشانہ بنا کر بلوچ عوام کی قتل عام کر رہے ہیں، اپنی ناکامی کا غصہ عام آبادی پر اتار کر نہتے بلوچ نوجوانوں کو جبری اغوا کر کے لے جاتے ہیں اور بعد ازاں انہیں بیرونی خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ کا لیبل لگا کر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دیتے ہیں ۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ ریاست اپنی مکارانہ چالوں سے عالمی رائے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے اور ان کی انکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بلوچستان میں جاری بیرونی ایجنسیوں کی مداخلت قرار دے کر اپنی نو ابادیاتی تسلط کو برقرار رکھنا چاہتی ہے مظلوم بلوچ قوم کی سائل وسائل کو بیچ کر اپنی فوجی قوت میں برتری اور معاشی استحکام کے لیے کوشاں ہے ۔
اس ساری گیم میں ریاستی کارندے سیاسی جماعتیں برائے نام بلوچستان حکومت برابر کا شریک ہے جو ریاست وحشت پر پردہ ڈال کر اصل حقائق سے منہ موڑتے ہیں منہ موڑتے ہوئے فورسز کی بے بنیاد اور من گھڑت دعووں کی تائید و حمایت کر رہے ہیں۔ بلوچستان حکومت کی ریاست کی نمک ھلالی کی وجہ سے بلوچ پر ریکارڈ توڑ ظلم و جبر اور سفاکیت کے حربے ازمائے جا رہے ہیں ۔
انھوں نے کہاکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آپریشن میں ریاستی ظلم جبر بلوچ عوام کے لیے کھلا پیغام ہے کہ بالادست حکمران اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اپنی نوابداتی تسلط برقرار رکھنے کے لیے مارو پھینکوں کی پالیسی کے تحت غیر انسانی صفا کانہ عربوں سے ہچکچانے والی نہیں اور نہ ہی پرامن جدوجہد کرنے والوں کو جینے کا اختیار دیا جائے گا۔