تربت کے گاؤں جوسک میں 13 مئی کو ایرانی بارڈر پر تیل کے کاروبار سے وابستہ 20 سالہ آدم ولد سومار کی والدہ اور ان کے بڑے بھائی نے خاندان کی دیگر مرد و خواتین کے ہمراہ تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کی اور ان کے جبری گمشدگی کے تفصیلات سے آگاہ کیا۔
کیچ سے گفتگو میں آدم سومار کی والدہ نے کہا کہ قریب دو ہفتہ ان کی گمشدگی کو پورا ہورہے ہیں لیکن ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ انہیں کس نے اور کیوں اغوا کیاہے ۔
ان کا کہنا ہےکہ بھرے بازار میں ایک شخص کو دن دھاڑے اغوا کرکے لاپتہ کرنا اور پھر مکمل خاموشی نہایت تکلیف دہ ہے۔ ہم مسلسل 9 دنوں سے ایک قیامت خیز کرب سے گزر رہے ہیں جس کا ادراک ہمیں ہی کو ہے۔
اس دوران لاپتہ شخص کے رشتہ دار سیاسی جماعت کے کارکن منظور احمد رئیس نے بتایا کہ کیچ میں چند ہفتوں سے جبری گمشدگی کا ایک تازہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں روز تیزی آرہی ہے۔
بی این پی کے رہنما منظور احمد رئیس نے کہا کہ آدم سومار جیسے عام نوجوانوں کا اغوا کیوں کیا جارہا ہے یہ ابھی تک سوالیہ نشان ہے، ضلع کیچ کی انتظامیہ انسانی حقوق کی پامالی کے اس اہم مسلے پر خود کو لاتعلق رکھ چکی ہے جو تشویش کا باعث ہے۔