پنجگور کے علاقے وشبود کے ایک نجی اسکول کے ٹیچر کا دوران پڑھائی مسلح افراد کے ہاتھوں اغوا اور پھر ان کی تشدد زدہ ہاتھ پاﺅں بندھی نعش پلنتاک سے برآمد ہونے والے سیکنڈ ایئر کے اسٹوڈنٹس ارسلان اسلام بلوچ کی ہمشیرہ سمیہ اور اسکی کزن فاطمہ نے اپنی رہاش گاہ پر اپنی اہلخانہ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میرا بھائی بلوچ قومی نسل، ان کے روشن مستقبل کیلئے بحیثیت ٹیچر جہدکار تھا، اپنے علاقے میں بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہا تھا وہ14 مئی کو اپنے سیکنڈ ایئر کے مضمون فزکس کا پیپر دے کر گھر آیا، معمول کی طرح وہ اپنے اسکول پجار اکیڈمی میں بچوں کو پڑھانے گئے، وہ دوسری جماعت کے بچوں کو کلاس میں پڑھا رہے تھے کہ نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سوار افراد نے اسکول کے اندر بچوں کے سامنے بندوق کے زور پر انہیں اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے، ہم نے اس حوالے سے پولیس کو اطلاع اور درخواست دی لیکن پولیس بہت مصروف ہونے کی وجہ سے تفتیش نہ کرسکی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی سے کوئی دشمنی نہ کوئی رنجش ہے اور نہ ہی ارسلان اسلام کسی بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے، ایک انتہائی غریب اسٹوڈنٹس تھا، کالج اسکول کے بعد گھر میں وقت گزرتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پنجگور میں انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں، انسانیت کا کوئی پرسان حال نہیں، نہ ہی غریب کی کوئی آواز ان کی خاندان کے درد کو محسوس کیا جاتا ہے۔ اگر اس طرح اسکولوں میں گھس کر ٹیچرز کو اغوا پر سماجی خاموشی رہی تو یہ خوف آنے والے کل کیلئے بھیانک ثابت ہوگا۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہم سول سوسائٹی، سیاسی سماجی تنظیموں و قوم پرست جماعتوں کو گوش گزار کرانا چاہتے ہیں کہ ہم انتہائی مظلوم بے گناہ بے سہارا کمزور لوگ ہیں، ہمیں تواتر کے ساتھ پریشانی کا سامنا ہے، ہمارا ساتھ دیں، اس سے قبل ڈیڑھ ماہ پہلے بھی ارسلان اسلام کو مسلح گاڑی میں سوار لوگوں نے اغوا کرکے اذیت دے کر چھوڑ گئے نہ کچھ بتایا نہ کچھ کہا گیا کہ کس جرم کی سزا دی جارہی ہے، بس ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ بغیر تصدیق کے سوشل میڈیا پر اپنے مختلف بیانیہ پیش کر رہے ہیں جو افسوس ناک عمل ہے۔