بلوچستان میں بسنے والے دو بڑے اقوام بلوچ پشتون سمیت آزادی کی کیلے دیگر اقوام نے صدیوں سے ظالم قابض ،لٹیروں ،مذہبی پنڈتوں ،منشیات فروشوں ،ضمیر فروشوں سمیت ہر اس طاقت سے لڑنے کی کوشش کی ہے جس سے انھیں اپنی تشخص اور زمین ،قدرتی وسائل ،ثقافت ،زبان رسم ورواج کے چھن جانے کا خطرہ رہاہے ۔
تاریخ اٹھاکر دیکھیں یہاں کے رہنے والے اقوام نے کبھی آزاد حیثیت تو دیر تک برقرار نہیں رکھ سکی ہے مگر کسی بھی ظالم طاقت سامنے سر خم تسلیم بھی نہیں کیاہے ۔ چاہئے وہ طاقت بیرونی رہے ہوں یا اندرونی سینہ تان کر مقابلہ کرتے چلے آرئےہیں ۔
اگر ہم صرف غیر فطری ریاست پاکستان کے قبضے کو دیکھیں جب سے انھوں نے بلوچستان کی سالمیت پر حملہ کرکے یہاں کے اقوام کو زیر کرنے کی کوشش کی ہے اس دن سے محکمو م عوام کبھی تیز تو کبھی چنگاری بن کر ان کی نیند اڑا نے کیلے مخصوص گروہوں کی شکل میں حکمت عملیاں بناتے رہے ہیں۔
جب قابض نے دیکھا ہے کہ پانی سر سے گزرنے کے قریب ہے انھوں نےجاگیرداروں ،نوابوں ،سرداروں ،
میر معتبر ، منشیات فروشوں ،سمیت ہر اس گلی کے مرغی چوروں کو ہاتھ میں لیکر اپنی نام نہاد اسمبلی یا بندوق ہاتھ میں دیکر اس آواز کو دبانے کی کوشش کی ہے جس کا تعلق براہ راست انسانی آزادی سمیت وطن کی جغرافیائی حدود کو قابض سے واپس چھین کر مکمل آزادی حاصل کرنے سے رہاہے ۔
ہم جب بھی تاریخ کے پنوں کو پلٹا کر دیکھتے ہیں تو ظلم کیخلاف یہاں کے باسیوں کو گروہوں کی شکل میں اکھٹا پایا ہے ۔ مگر افسوس سے کہنا پڑ رہاہے کہ بلوچستان کے باسیوں کو ہروقت ظلم کیخلاف ایک چھتری نیچے جمع ہونے سے مراعات یافتہ طبقہ نے روڑے اٹکا کر روکے رکھا ہے ۔
اس مراعات یافتہ طبقہ نے کبھی بلوچ پشتون ،کبھی بلوچی براہوئی زبان ،کبھی نمازی زگری،کبھی شیعہ سنی ،کبھی نواب سردار متوسط طبقہ،کبھی خان خیل ،ملک خیل میں بانٹ کر عام رعایا کو اکھٹے ہونے سے روکے رکھا ہے ۔ اور عوام کے نام پر اپنی اپنی تجوریاں بھرنے کی کوشش کرکے انھیں سیڑھی بنانے کے بعد پھینک دیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔
ہر طبقہ اپنی ذات میں مگن ہے کوئی قابض ریاست کو ڈھال بناکر ٹیکس کے نام پر عوام کے کندھے کو استعمال کرکے مراعات حاصل کررہاہے تو کوئی لفظ مظلوم کو ڈھال بناکر( آزادی ) عوام کے کندھے پر چڑھ کر اپنی ذات کیلے چندہ اکھٹا کرکے جائیداد
،بنگلے ،فیکٹریاں بناکر ، پیٹی ٹھیکدار لیڈر بنا پھرتے ہیں اور وہ بھی ہماری طرح خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ عوام ہمارے ہر کالے سفید عمل کے ساتھ ہیں ۔ اگر ان باتوں میں سچائی نہیں ہے تو کیا وجہ ہے ہم صدیوں سے ایک زمین کے ٹکڑی پر رہ کر آپس میں دست گریبان ہیں ، پشتون و بلوچ ، سردار نواب و متوسط طبقہ ،امیر غریب میں ، تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں ۔ 75 سالہ غلامی دوران ہم آج تک قوم کو ایک متفقہ سیاسی طاقتور پارلیمانی غیر پارلیمانی پارٹی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق مکمل مسلح تنظیم دینے میں ناکام ہیں ؟
مانا کہ ہم ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کے مسجدیں( تنظیمیں) بناکر درجنوں پیٹی ٹھیکدار لیڈر تو پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں مگر ان سے سوال کرنے لائق نہیں ہیں، کیا ان کی لگام عوام ( مضبوط ادارہ ) کے ہاتھوں میں ہے اگر پاکستانی کی آئین کی طرح ادارے تو بنائے گئے ہیں مگر باگ ڈور ہر کسی تنظیم کا کسی ( کوئی بااختیار تھنک ٹینک نہیں) ایک فرد کے کنٹرول میں ہے ۔ تو ہوشیار رہیں یہ کسی ایٹمی ہتھیار کی تابکاری سے کم نہیں ہیں ، یہ کسی بھی وقت جانے انجانے میں آپ کی کامیابی کو ناکامی میں بدل کر تباہی کا باعث بن سکتے ہیں ۔
بلوچستان کے رہنے والے تمام مظلوم اقوام کی ذمہداری ہے کہ وہ دونوں محاذوں پر لڑنے کیلے کمر کس لیں ،بیرونی قابض کو ہرانا مشکل نہیں ہے جتنا آپ کے آستین میں پلنے والے انفرادی پیٹی ٹھیکیدار لیڈروں کو مشکل ہے ۔
خدانخواستہ ایک انفرادی لیڈر جو صرف اپنی ذات اور خاندان کیلے عوام کے آستین میں پل رہاہے قومی نام استعمال کرکے عملی طورپر قوم کے حقوق کا دفاع کرنے لائق نہیں ہے،اسے آنے والے کل کے فائدہ نقصان کا ادراک نہیں ہے تو اسے اپنے اپنے پارٹی تنظیم سے دودھ کی مکھی کی طرح باہر نکال کر پھینک دیں کیوں کہ یہی سے آپ کی آزادی شروع ہوجاتی ہے ۔
اگر ہم سب کچھ جانتے ہوئے چوں چوں کا مربہ بن کر بغیر سوال کیے دیکھتے رہے تو مخصوص خاندان ضرور مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہوکر عیش کی زندگی نعشوں کو بناکر پا لیں گے ، مگر قومی غلامی کا کڑا ،زنجیر بیڑی بن کر نسل درنسل ہمیشہ آپ کو آپ کے بعد آپ کے بچوں کو بھی جکڑے رکھے گا ۔
لیڈر پھرکنے کا آسان طریقہ ہے آپ اپنے لیڈر سے سوال کریں کیوں کہ ہر قومی لیڈر جواب دینے کا پابند ہے اگر کوئی لیڈر ، جواب نہیں دینا چاہتا یا لاجواب ہے اور وہ ہارے ہوئے مرغے کی طرح اپنی سر آپ ہی کے بازوں میں چھپانے کی کوشش کررہا ہے، آنکھیں نکال کر نتھنے پھیلا رہاہے تو آپ یقین کریں وہ لیڈر نہیں بہروپیا ہے ۔ آپ قوم کے اندر بلا کسی صنفی تقسیم کے اپنی لیڈر کو تلاش کریں جو پھنسے ہوئے کشتی کو سہار ا دیکر منجھندھار تک پہنچانے قابل ہو ۔ یقین کریں بلوچستان میں ابتک کوئی ماں بھی بانجھ نہیں جو وطن کو کامیاب قومی لیڈر نہ دے سکیں ۔
اگر ہم اور آپ ، محض خوش فہمی میں رہ کر یا ڈر کے مارے سوال کرنا چھوڑدیں گے کہ نام نہاد پیٹی ٹھیکیدار لیڈر ، سوال کرنے پر ناراض ہو کر پاکستانی کی فوج کی طرح ہاتھ دوھ کر پیچھے پڑکر ہمیں ہمارے خاندان کو کسی طرح نقصان پہنچانے کیلے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے تو آپ غلط سوچتے ہیں ، کیوں کہ جس قوم کا آپ اور آپ کے خاندان حصہ ہیں ۔ وہ آپ کو قومی سطح پر پہلے ہی سے دیمک کی طرح مخلص لیڈری کی چادر اوڑھ کر چاٹ رہے ہیں ۔
حقیقی قومی لیڈر کے راہ میں بڑی رکاوٹ بھی یہی نام نہاد پیٹی ٹھیکیدار لیڈر ہیں جو نہیں چاہتے ہمارے انفرادی مراعات ہم سے کسی طرح کسی موڑ پر چھین جائیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری سر ہر وقت کڑاہی کے اندر ہی رہیں ۔ جنتا جائے تو جائے بھاڑ میں ،مرتے ،لاپتہ ہوتے، گنوار ان پڑھ ،یتیم ، مہاجر ،غلام نسل درنسل بنتے ہیں ، تو بننے دیں ہماری بلاسے ، کیوں کہ غلامی کے رہتے ہم ہی ہر جگہ کسی بھی شکل میں گنگا میں نہا رہے ہوتے ہیں تو موقع کیوں گنوائیں ۔
کوئی قابض اسمبلی کا ایم این اے ،ایم پی اے ،میئر قابض فوج کی مدد سے بن جاتا ہے تو کوئی سوشل میڈیا پر درجنوں اکاونٹ کھول کر اپنی ہی تصاویر کو اپنے جعلی اکاونٹوں پر شیئر پوسٹ کرکے قربان جاوں ، آئرن لیڈی ، مین جیسے القابات نوازنے کے علاوہ بلوچستان کا وزیر اعظم ،کوئی چیف کمانڈر ،چیئرمین ، صدر اپنے آپ کو مخصوص درباری گروہ ذریعے منواکر اپنی دل کو ہر وقت بھلا پھسلاتے رہتے ہیں ۔
یقینا ایسے لوگ لیڈر تو کیا کسی بھی پارٹی تنظیم کے ممبر کارکن بننے لائق نہیں ہیں بلکہ وہ کسی ماہر نفسیات کے ہاں بھرتی کرنے لائق ہوتے ہیں ۔