سرگودھا سے جبری لاپتہ خداد سراج کی بازیابی کیلے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور لواحقین نے پریس کانفرنس کی ۔

 


تربت اہلیان خداداد سراج و بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماوں نے  کہاکہ آج ہم آپ کو بلوچستان کے سر زمین پہ غیر قانونیت کے دلدل میں پھنسے ایک اور خاندان کی آواز بننے کے لیے دست بستہ ہے۔ آج کا یہ پریس کانفرنس خداد داد ولد سراج کے فیملی کے جانب سے کی جارہی ہے۔ 


آپ سب کو پتا ہے کہ گزشتہ دو عشروں سے اس ریاست میں بطور محکوم قوم بلوچ ایک ایسے مسئلے سے دوچار ہے جو آج ہمارے سماج کو ذہنی طور پہ مفلوج کر چکی ہے۔ بلوچستان کا یہ مسئلہ اب ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے، اور یہی مسئلہ آج ہمیں بھی پریس کلب و سڑکوں پہ لاچکی ہے۔



پریس کانفرنس میں کہاکہ خداداد سراج ولد سراج کرکی تجابان کیچ کے رہائشی ہے، پچھلے 3 سالوں سے وہ سرگودھا میڈیکل کالج ادارے میں تعلیم حاصل کر رہا ہے، ہم بطور بلوچ اس درد سے آشنا تھے کہ خاندان کے کسی رکن کا لاپتہ ہونا کس طرح تکلیف دہ ہے البتہ ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہم بھی اسی غم سے دوچار ہونگے۔ 8مارچ 2024 تایخ کو شب 8 بج کر 35 منٹ  بہ مقام ظفراللہ چوک سرگودھا پنجاب سے خداداد سراج  کو سادہ وردی میں ملبوس افراد جبری طور پہ اپنے ہمراہ لے جاتے ہے۔ اور اب ہم بھی ان ہزاروں افراد کا حصہ بن چکے جو سالوں سے اپنوں کے لیے در بدر ہے۔ اس بات پہ ہمیں کوئی قائل نہیں کر پاتا کہ کسی جبری گمشدہ کا خیال مرے ہوئے سے زیادہ قرب ناک ہے، مگر آج یہ چیز ہم عملی طور پہ دیکھ چکے ہے تو ہم کہتے ہے کہ شائد اس درد سے بڑھ کر کسی کے زندگی میں کوئی درد ہو، کیونکہ یہ نا صرف ایک درد ہے بلکہ اسکے ساتھ ہولناک انتظار کا ایک قصہ شروع ہوجاتا ہے جہاں لمحے لمحے آپ کو ایسے خیالات آتے ہے جو آپ کو ہزاروں دفع مرنے کا احساس دلاتی ہے۔ آج خداد داد کی جبری گمشدگی سے ہمارا خاندان جس قرب سے گزر رہا ہے اس درد کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ 


 انھوں نے کہاکہ خداداد سراج کی بازیابی کے لیے ہم نے 14مارچ  کو احتجاجا سی پیک شاہراہ بند کردی تو ہمیں انتظامیہ نے یقین دہائی کرائی کہ انہیں جلد رہا کیا  جاۓ گا، مگر شائد ان افراد کے لیے یہ کام بھی ایسا کام ہے جسے تہہ خانوں کے نظر کرنا کوئی مسئلہ نہیں جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ ایک ایک لمحہ زندگی کتنی تلخ ناک ہے۔ دوسری مرتبہ 20مارچ کو  ماہ رمضان میں تین روز تک ہم روڈ بند کر کے بیٹھے رہے مگر پہلے کی طرح اس بار بھی ظالموں کو نا ہی ترس آیا اور نا ہی اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدگی دکھائی گئی، مسافروں کے پریشان حالی دیکھ کر ہم ایک مرتبہ پھر انتظار کرنے گھروں کو لوٹ گئے مگر کوئی حال نا ملنے پر آج ہم پھر ریاست کو ریاست کا کردار ادا کرنے کی یادہانی کر نے پہنچ چکے ہے۔ اس بات کو ہم ایک بار نہیں ہزار بار دہراتے ہے کہ خدادداد ہمارے کنبے کے رکن ہے اور اس رکن کے لیے جس قرب سے اس وقت گزر رہے اسی شدت سے اس قرب سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرینگے، جس حد تک ممکن ہوگا ہم احتجاج کر ہینگے، چاہے وہ احتجاج تجابان میں روڈ بند کرنے سے ہو یا اسلام آباد تک لانگ مارچ تک، ہم اپنے بچے کی باحفاظت بازیابی کے ہر حد تک جدوجہد کرینگے۔


لواحقین نے پریس کانفرنس دوران کہاکہ آپ سب جانتے ہے کہ لاقانونیت کی اس دور جو ہم جیسا خاندان جس کا نا سیاسات سے کوئی تعلق ہے اور نا ہی قانونی علم کا اندازہ مگر ہم آکر ان سڑکوں اس ریاست کہ یہ کہہ رہے کہ اپنے آئین پہ کاربند رہے، اپنے قوانین کا احترام کریں، ہمارے پیارے اگر کسی مشکوک سرگرمی میں مبتلا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے قانونی کاروائی کا حق ادا کریں جب ہم جیسے لوگ آکر یہ بات کرتے ہے تو یقین کیجیے ریاست کے چلانے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے، ریاست کے والی کہتے ہے کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو سیاسی بنایا جارہا ہے، ہم کہتے ہے کہ ہر لاپتہ فرد کا  سوالریاست کے وجود پہ سوال ہے اور ریاست ان سوالیہ نشانوں کے نیچے اپنی وجود کھو چکا ہے یہ کیسی ریاست ہے جسے ہم اسکے اپنے قوانین ماننے کا درخواست کریں؟ یہ کیسی ریاست ہے جو خود ہر خاندان کو ایک ایسے راہ پہ لے آتی ہے جو اسکے خلاف انگلی اٹھائے۔ جب لوگ ہزاروں کے تعداد میں لاپتہ ہو تو مسئلہ خود  سیاسی مسئلہ بن جاتا ہے ۔ آج اس سنگین مسئلے پہ ریاستی سربراہان غیر سنجیدہ بیان بازیاں کرکے ہم جیسوں کی زخموں پہ نمک پاشی کرتے ہے تب ہماری دلوں میں ریاست کا احترام ریت کے محل جیسے بکھر جاتا ہے۔ یہ مسئلہ انتہائی سنگیں مسئلہ ہے، اس مسئلے پہ لانگ مارچ جیسا قدم ہم کہتے ہے کم ہے، ہم خود اس نہج پہ پہنچ چکے کہ خود سوزی جیسی احتجاج کے خیالات جنم لے رہے ہے۔


انھوں نے کہاکہ ہم اس ریاست پہ واضع کرنا چاہتے ہے کہ ہمیں اگر ایک شہری کے حقوق حاصل ہے تو ہمارے پیاروں کو گمنام نا کیا جائے، اس مسئلے سے نا ہی ریاست کو بقا کو ممکن بنایا جاسکتا ہے نا ہی اسکے معیار کو بلند کیا جاسکتا ہے بلکہ یہ عوام اور ریاست کی بیچ نفرت کی دیوار کو مظبوط کر رہی ہے۔ ہم اپنے پیارے کی بازیابی کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد نہیں رکھتے ، اور خداداد کی بازیابی کے لیے اس تحریک کو تب تک وسعت دیتے جائنگے جب تک وہ سلامتی سے بازیاب نہیں ہوتے۔ لاپتہ افراد سے منسلک مسئلے پہ کوئی غیر سنجیدگی قابل قبول نہیں۔ ہم اپنے احتجاج کو وسیع کرتے ہوئے 31 مارچ کو ایک گرینڈ ریلی کا اعلان کرتے ہے۔ جس میں ہم مکران میں موجود جبری گمشدگی کے شکار تمام افراد کو درخواست کرتے ہے کہ بھر پور طریقے سے شرکت کریں۔ ہم سب کے آواز ہم خود ہے۔ اور ہم اپنے پیاروں کے لیے ریاست کو ریاست کا قردار ادا کرنے کے لیے اس جدوجہد کو آگے لے جانا لازمی ہے

آخر میں میں سبغت اللہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما رکن کے لحاظ سے متاثرہ خاندان کے اس احتجاج کی کال کے حمائیت کا اعلان کرتے ہے اور آپ سب سے امید کرتے ہے لاپتہ افراد کے لیے اس قانونی جدوجہد کو آگے لے جانے میں ہم سب بطور قوم ہم آواز رہینگے۔ 


انھوں نےکہاکہ ریاستی مشینری انتہائی غیر سنجیدگی و غیر انسانی عمل اپنائے ہوئے ہے، قانون و عدالتوں کے موجودگی میں ہزاروں لوگوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنانا، ہزاروں خاندانوں کو ایک نا ختم ہونے والےانتظار کرنے جیسے قرب میں مبتلا کرنا ، کبھی مسخ شدہ لاش تو کبھی جعلی مقابلوں کا ڈھونگ رچانا ، اور اب رہی صحیح کمی یہ تھی کہ ہر جنگجو کو لاپتہ افراد کا حصہ ظاہر کرکے اس جدوجہد کو غیر قانونی قرار دینا۔ یہ بچگانہ حرکتیں ریاست کے معیار کو دن بہ دن گرانے کے سوا کچھ نہیں کر رہے، ریاست اپنی طفلانہ سازشوں سے اپنے ہی عوام کے اندر اپنا تاثر کھو چکا ہے، فوجی آمریت کے سوا ریاست کو بیان کرنے کے لیے کوئی لفظ نہیں رہا۔ مگر ہم واضع کرتے ہے ہم سے زیادہ پر امن کوئی نہیں، ریاست کو قوانین کا احترام کرنا لازم وہ ملزوم ہے، کسی بھی فرد کو جبری گمشدہ کرنا کسی بھی قانون کے لوازمات میں شامل نہیں۔ یہاں تحریکیں جنم لینگی، یہاں عوامی غصہ ابھرے گا، یا ریاست سے نفرت سڑکوں پہ گھومے گی، ریاست ہوش کریں ، ریاست کے والی ریاست پہ رحم کریں اور غلیظ پرپگنڈہ پہ اپنے وسائل کو خرچ کرنے کے بجائے اس مسئلے کو سنجیدگی کے بنیاد پہ حل کرنے کی کوشش کریں۔

 اس موقع پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے اعلان کیاکہ ہم آج شب خداداد کی بازیابی کے لیے ہونے والے کیمپین ، اور 27 مارچ کو ہونے والی لاپتہ افراد کے لیے ہونے کیمپین کی حمایت  کرتے ہیں، اور آپ سب سے درخواست کرتے ہیں بطور زی شعور انسان اس غیر قانونی عمل کے خلاف یکجاں و یکمشت ہو جائیں ،کیوں کہ  سیاسی و عوامی جدوجہد ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ 


Post a Comment

Previous Post Next Post