موضوعات تو لکھنے کیلے بہت ہیں مگر آج ایک دل ھلانے دینے والے خط کو شامل کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتاہے کہ ایک مخصوص طبقہ اپنی انا کی خاطر دو دہائیوں سے جاری جہد ، شہدا ء کے خون اور ساتھیوں کے پسینہ( آزاد بلوچستان مشن ) کو شعوری لاشعوری طورپر ضائع کرکے آزاد ی کی تحریک کو کمزور ، اپنے ہی ساتھیوں کو جہد سے بدزن کرنے اور جہد کو نقصان پہنچانے کا باعث بن کر دشمن کیلے پیدا ہونے والے مشکل حالات کا آسان کر رہے ہیں ، یہ خط انھوں نے بھیجا ہے جنھوں نے بلوچستان کے آزادی کیلے اپنا سب کچھ داو پر لگاکر چھوڑ کر جہد کا حصہ بن کر نہ صرف پچھلے بیس سال سے بلکہ اب بھی اپنے آپ کو وقف کرکے جہد کا حصہ بنے بیٹھے ہیں تاکہ وہ خواب کو پورا کرسکیں جو پچھلے 76 سالوں سے دیکھ رہے ہیں ۔
انھیں دشمن سے رتی بھر شکایت نہیں ، مگراپنوں سے اتنی شکایت کہ آپ بھی سن کر خون کے آنسوں بہانے پر مجبور ہوکر دنگ رہ جائیں گے کہ کیا آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی کوئی کسی ایسے ساتھی کو خاموشی سے ایک وقت کی دال روٹی کیلے پریشان کرسکتا ہے جو اصلاح کرنے کی کوشش کرکے انھیں کھائی میں گرنے سے بچانے کی جتن کر رہاہو ؟ میری طرح آپ کو بھی یقین نہیں آئے گا کہ آزادی کے راہ پر چلنے والے ایسے حرکت کر بیٹھیں گے جو کسی کے خواب میں نہیں ہے ۔
یقین جانیے یہاں خط شامل کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ آزادی کے جہد میں شامل کسی بلوچ مسلح یا غیر مسلح پارٹی تنظیم کو نیچا دکھاکر کمزور کرنا ہے ، بلکہ خط شامل کرنے کا مقصد ان ذمہداروں یا قبضہ مافیا کی نشاندہی کرنا ہے، جو آستین کا سانپ بنکر تحریک کو دانستہ غیر دانستہ طورپر خون و پسینہ دینے والے ساتھیوں اور انکے خاندان کو مختلف طریقوں سے ذہنی پریشانی میں مبتلا کر کے اپنی انا ء کو تسکین پہنچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ۔ اور ان تحریک سے دور رکھنے والے کرداروں کی نشاندہی کرنا ہے جو لاشعوری یہ حرکت کر رہے ہیں، تو وہ اس حرکت سے باز آئیں ۔ اگر وہ شعوری کر رہے ہیں تو ان کی نشاندہی ہو تاکہ جہد کار ان سے بھی دشمن کی طرح نمٹ سکیں اور ان کرداروں کے بھیڑ والے کھال کو اتارکر بھیڑیہ والے کھال کو بے نقاب کر سکیں ۔
اسلام علیکم محترم سمیر جیئند بلوچ
امید ہے آپ خیریت سے ہونگے
عرض گزار ش یہ ہے کہ یہ خط لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ تحریک آزادی کے جہد میں شامل ان کرداروں کو سامنے لایا جائے جو آزاد وطن ، شہیدوں ، جہد کاروں کے خون اور پسینہ کے بدلے اپنوں سے چندہ تو لیتے ہیں مگر ان ضرورت مندوں تک وہ حق نہیں پہنچا تے جو پہنچانا چاہئے ۔ اگر کوئی ان سے بلمشافہ جواب طلب کرنے کیلے سوال کرے تو انھیں بعد ازاں ذہنی اذیت کا نشانہ بنانے کیلے کوئی قصر نہیں چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلایا جاتاہے ، اس کے علاوہ ان کا وار یہ ہوتا ہے کہ ان ساتھیوں کو انکے خاندان سمیت نان شبینہ کا محتاج کیسے کیا جائے تاکہ وہ ہماری غلطیوں کی نشاندہی نہ صرف کریں بلکہ آئندہ آمنے سامنے بھی نصیحت کرنابند کرکے آنکھیں نیچے کرکے بیٹھ جائیں جیسے کسی لینڈ لارڈ ،نواب سردار ،میر ٹکری ملک سامنے عام لوگ ان کا رعایا بیٹھ جاتے ہیں جہد کار آزادی پسند بھی ان کی طرح حیوان بن کر دم ہلاکر ہاں میں ہاں ملاکر چلیں کوئی نشاندہی کوئی تعمیر تنقید نہ کریں ۔ حقیقی معنی میں دیکھا جائے تو کوئی بھی جہد کار جب بھی کسی آزادی پسند تنظیم کا حصہ بنتا ہے تو معاشی اور خاندانی حوالے سے رشتوں سمیت ہرچیز جلاکر،پیچھے چھوڑ کر شامل ہوجاتاہے ۔
پھر وہ ساتھی جہد کار جب تک دشمن کے نظر سے اوجھل رہتاہے وہ اپنے جیب سے ہی اپنا جمع پونجی کھاتا رہتا ہے یا کوئی صاحب حیثیت ہے تو دشمن ریاست کے ہاتھوں لٹ جاتاہے مثلا کسی کا باغ ہے زرعی زمین ہے تو وہ دشمن جلاکر علاقائی لوگوں کو حکم دیتاہے کہ وی ان زمینوں کو آئندہ کاشت نہیں کریں۔ اگر کوئی ملازم ہے تو تنخواہ بند کی جاتی ہے مطلب روز گار کے تمام ذرائع سے محروم کردیاجاتاہے۔ بچا کچھا علاقائی ڈیتھ اسکوائڈ کے کارندے لوٹ کر لے جاتے ہیں ، گھر دکانوں پر فورسز قبضہ کرلیتے ہیں یا انھیں بلڈوز کیاجاتاہے ۔ نتیجے میں انکے خاندان ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ان کا مقصد ہوتا ہے کہ جہد کو جاری رکھتے ہوئے وہ اپنی بچوں کو دشمن سے دور رکھ سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ دوسری جگہوں پر جاکر بس جاتے ہیں ، وہاں اپنا روز گار شروع کرکے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے ہیں جو خاندان کے ممبر جہد کے ساتھ جڑے تھے وہ بدستور اپنی ذمہداریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی کفالت کیلے بھی ہاتھ پاوں مارتے رہتے ہیں ۔ جہاں ان کی بس نہ چلے وہاں تنظیم ان کے سر پر ہاتھ پھیر دیتی ہے ، مگر یہاں کچھ کردار تنظیم کو بائی پاس کرکے یعنی اپنی منصب کا غلط استعمال کرکے تنظیم کو اس کا حقیقی کام کرنے نہیں دیتے اور رکاوٹ بن کر یرغمال بنادیتے ہیں ۔ وہ پسند ناپسند کی بنیاد پر ساتھیوں میں تفریق کرنا شروع کردیتے ہیں ، انھیں تنظیمی ساتھی کے نگاہ سے کم اپنی ذاتی رشتہ حوالے دیکھتے ہیں ، یہاں سے تنظیم کمزور ہوجاتی ہے ۔ اور فیصلے اجتماعی کے بجائے انفرادیت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ جب انفرادیت تنظیم پر ہاوی ہو جاتاہے تو تنظیم کے اندر چاپلوسی جنم لیتی ہے ۔
چاپلوس کو سب سے پہلے آئی فون سے نوازا جاتاہے ،گھر کے شاہانہ اخراجات تنظیم مخلص ساتھیوں کی پیٹ کاٹ کر پورا کردیتی ہے مطلب بنگلہ گاڑی فراہم کی جاتی ہیں ۔
اگر کسی نے مخلصی کے بنیاد پر ان حرکتوں کی نشاندہی کی کہ، یہ حرکات جہد کیلے نقصاندہ ہیں انفرادیت بجائے تنظیم کو اختیارات دیئے جائیں ، اگر کسی ساتھی کی حقیقی معنوں میں بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتے وہ نان شبینہ کا محتاج ہے تو تنظیم کی ذمہداری ہے اسے فراہم کی جائیں اگر اس ضرورت مند ساتھی کے اخراجات جس میں ایک وقت کی روٹی شامل ہے اگر تنظیم کے اس خاندان جن کی مجموعی تعداد تین افراد پر مشتمل ہے فراہم نہیں کی جاتی تو تنظیم کے اختیار دار کو بھی یہ حق نہ دی جائے کہ وہ اپنے 70 / 80 افراد پر مشتمل خاندان کی کفالیت تنظیمی وسائل سے شاہانہ انداز میں کریں، اس طرح اگر کسی شہید ساتھی کے فاتحہ کیلے ایک بکرا کاٹا جاتاہے تو اختیار دار کو یہ حق نہیں کہ اپنے فیملی ممبر کی شہادت پر چالیس چالیس بکرے اور گائے اونٹ گاٹے ۔ اسی طرح کسی ساتھی کے خوشی شادی بیاہ پر تنظیم یا پارٹی کی طرف سے دو بکرے دیئے جاتے ہیں تو یہ اختیار دار پر لاگو ہونا چاہئے کہ وہ اپنے خاندان کے فرد پر وہی خرچہ کرے کیوں کہ یہ تنظیم کے پاس قومی امانت ہیں کسی کا ذاتی نہیں ۔
مندرجہ بالا حقائق بیان کرنے والے ساتھی کو دانستہ ہر ماہ نان شبینہ کا محتاج بناکر ذہنی ازیت کا نشانہ بنایا جاتاہے ، چاہئے بھلے وہ تنظیم کے اندر جتنا سینیئر لکھا پڑھا ہو ، وہ بھلے دن رات جہد کیلے اپنا وقت وقف کر چکا ہو اس کی عزت نہیں کی جاتی ۔
امید ہے ان حقائق کو مدنظر رکھ کر تنظیم کے رہنما کرتا دھرتا ساتھی اپنا خود احتساب کرکے ایسے حرکتوں سے بعض آئیں گے ، وہ محض اس لیئے ان دوستوں کو نشانہ نہ بنائیں گے جو انکے آگے پیچھے دم نہیں ھلاتے اور وہ جہد کی کامیاب کیلے تنظیم کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور ہر وقت کمیوں کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں ۔
نوٹ یہ باتیں مجبور ہوکر میڈیا ذریعے بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آف دی ریکارٹ پچھلے بیس سال سے تنظیم کے اندر رہ کر کرنے کی کوشش کر تے رہے مگر نتیجہ یہ نکل آیا کہ اختیاردار سنبھلنے بجائے خود شتر مرغ بن کر بیٹھ گئے ہیں وہ اونٹ بنیں یا پرندہ ایک طرف ہوجائیں ۔
وسلام ایک گمنام عدنا آزادی پسند ساتھی ، (اصلاح پسند ساتھیوں کو اس وقت اس لیئے نان شبینہ کا محتاج کیے جانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے کہ انھوں نے دشمن کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غلامی قبول نہیں کی ہے ، دوسری جانب برابری کا خواہاں ہیں اور اپنی تنظیم کی بالادستی چا ہتے ہوئے انفرادیت کو جڑ سے نکال باہر پھینکنے کی کوشش میں ہیں تاکہ تنظیم کے اندر منافقت کو بڑھاوا دینے والے کرداروں کو بے نقاب کیا جاسکے) ۔