خود کش حملے انسانیت کیلے فائدہ مند یا نقصاندہ ؟ تحریر سمیر جیئند بلوچ

 



خضدار کے علاقے گزگی میں پاکستانی فوج نے چھاپہ مارکر عبدالحکیم نامی بزرگ  شخص کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔ عبدالحکیم گذشتہ روز گوادر حملے میں شامل فدائی شوکت حکیم کے والد ہیں۔

یہ تازہ ترین خبر ہے اور بزرگ کے جبری گمشدگی کا سبب یہ ہے کہ گزشتہ روز انکے بیٹے نے گوادر میں دیگر سات بلوچ نوجوان فدائین کے ساتھ مل کر بقول بلوچ لبریشن آرمی  بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ "  20 مارچ 2024  کو سہہ پہر ساڑھے تین بجے کے قریب بلوچ لبریشن آرمی کے فدائین یونٹ مجید بریگیڈ کے آٹھ فدائین نے قابض ریاست کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کرکے 25 پچیس سے زائد دشمن اہلکار ہلاک کیے اوربہادری کی اعلیٰ مثال قائم کرکے مادرِوطن پر ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔ ہلاک ہونے والے دشمن اہلکاروں میں دو کمیشنڈ افسران سمیت ملٹری انٹیلیجنس کے 6، آئی ایس آئی کے 8 اور آرمی و نیوی کے 14 اہلکار ہلاک شامل ہیں"

سب سے پہلے ہمیں دیکھنا ہے کہ دنیا کے جتنے ممالک  میں فدائین ( خود کش )  حملے کیے گئے ہیں کیا انھیں دنیا کے دیگر ممالک میں پذیرائی ملی ہے ؟
کیا وہ  اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ؟

خود کش کاروائیوں کیلے اکثر یونان ،جاپان ،تامل ٹائیگر، القاعدہ  کی مثالیں دی جاتی ہیں ۔  انھیں جاننے کیلے یہاں بلاگر قیصر عباس فاطمی  کی بلاگ سے انکا تحریر کیا گیاکالم شامل کرتے ہیں تاکہ ہمیں اس گتھی کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ وہ اپنے بلاگ میں خود کش حملوں کی مختصر تاریخ کے عنوان سے لکھتے ہیں ۔

شمعون فلسطائن میں آخری قاضی تھا، جسے بے پناہ طاقتوں سے نوازا گیا تھا، وہ شیر کا شکار کر سکتا تھا اور کسی بھی طاقتور جانور کو ہاتھوں سے چیر دیتا تھا۔ اس قصے کا ذکر بائبل کے نسخہ قدیم میں ملتا ہے۔ فلسطائنی (یہ اس زمانے کی ایک قوم تھی) ایک دربار میں اکٹھے ہوئے اور اج شمعون (جو اپنی طاقت کھو چکا تھا) کو قربان کرنے کا دن تھا تا کہ وہ اپنے دیوتا کو خوش کر سکتے۔ لکھا ہے کہ جس قلعے میں اسے قید کیا گیا تھا وہاں کئی ہزار لوگ موجود تھے۔ شمعون اپنے خدا سے کھوئی ہوئی طاقت واپس پانے کے لیے دعا کرتا ہے، اس کی دعا قبول ہوتی ہے اور جیسے ہی اسے قربانی کے لیے لایا جاتا ہے وہ قلعے کے ستون گرا دیتا ہے۔ جس سے شمعون سمیت قلعے میں موجود تمام لوگ مر جاتے ہیں۔ شاید یہ تاریخ کا پہلا ”خود کش“ ہے جس کا ذکر ایک مقدس مذہبی کتاب میں افسانوی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔

اسی طرح یہودیوں کے سیکاری فرقے کے یونانی یہودیوں (جن پراصل یہودی تعلیمات سے انحراف کا الزام تھا) کے خلاف ”خودکش“ حملے بھی تاریخ میں ملتے ہیں۔ اگر انسانوں کو انسانوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے، جس میں ان کے جان جانے کے صد فیصد امکانات ہوں، کو خود کش سمجھا جائے تو قدیم یونان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہاں تک کہ ارسطو بھی غلاموں کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کی ترغیب دیتا نظر آئے گا۔ مگر تیر و تلوار کی جنگوں کے دورمیں ”خودکش“ کی تمیز کرنا بہرحال ایک مشکل امر ہے۔ لہٰذا خود کش حملوں کی تاریخ بارود کی دریافت اور اس کے استعمال سے شروع ہوتی ہے۔

اس بات پر متفق ہونا بھی مشکل ہے کہ پہلا بارودی خودکش واقعہ کب، کہاں اور کس مقصد کے تحت ہوا۔ تاہم گن پاؤڈر کے دریافت کے بعد خود کش حملوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ اورایسے واقعات چین، روس، امریکہ اور عرب وہند میں کثرت سے رونما ہوئے۔ گن پاوڈر کو برقت استعمال کرنے میں کافی دقت ہوتی تھی اور ایسے حملے زیادہ نقصان نا پہنچا سکتے۔ یہاں تک کہ انیسویں صدی میں ڈائنامایٹ کا استعمال عام ہوا۔ ڈائنامایٹ کا پہلا حملہ روس میں ہوا۔ جس میں ایک منسٹر بشمول خود کش حملہ آور کے ہلاک ہو گیا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں چین نے جاپان کے خلاف اپنی فوج میں باقاعدہ طور پر ایک ”خودکش سکواڈ“ تیار کیا۔ جس کا مقصد جاپانی فوجوں کو خاطر خواہ نقصان پہنچانا تھا۔ اسی صدی میں چین میں چنگ خاندان کے خلاف ایک بغاوت ہوئی۔ باغیوں کی اس تحریک میں خود حملے کرنے والوں کو ”ڈئیر تو ڈائی“ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بہتر شہداء ہوانگواگانگ کے نام سے ایک یادگار چائنہ میں ابھی بھی موجود ہے۔

دوسری جنگ عظیم میں جاپانی کامیکازی ہواباز خودکش حملوں کے لیے مشہور ہیں۔ کامیکازیوں کے 3000 سے زائد خود کش حملے کیے اور اتحادیوں کے درجنوں جہاز سمندر برد کر ڈالے۔ اگرچہ جاپان کو ان مہمات کا کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا، لیکن جنگ کے اختتام تک ہمت ہارتے جاپان میں خودکش جنگی مہمات ایک رواج کی حد تک عام ہو چکی تھیں۔ دوسری طرف جرمنی میں بھی خودکش جنگی مہمات دیکھنے کو ملیں۔ جنگ میں انسانی جان کے جانے کا امکان تو ہوتا ہی ہے، لیکن جب اس منصوبے یا غرض سے کوئی جنگی معرکہ سرانجام دیا جائے کہ اس میں حملہ آور اپنی جان کو یقینی طور پر گنوانے کے لیے تیار ہو، تو ایسے حملوں کو خودکش حملہ ہی شمار کیا جاتا ہے۔ جنگی مہمات میں مزید ایسے واقعات شمالی اور جنوبی کوریا، اور پاکستان اور ہندوستان کے مابین 1965 کی جنگ مین بھی ملتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد اہم ترین خود کش حملوں کی لہر لبنان، فلسطین اور اسرائیل کے علاقوں سے شروع ہوئی۔ زیادہ تر خود کش حملے کئی کئی ٹن بارود سے بھڑی گاڑیوں سے کیے گئے۔ 80 کی دہائی کے بعد چیچنیا کی ”بلیک ویڈوز“ کے خود کش حملے بہت مشہور ہیں۔ یہ خود کش حملے وہ بیوہ عورتیں کرتیں تھیں جن کے خاوند چیچنیا کی آزادی کی جنگ میں روس کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے۔ اسی عرصے میں سری لنکا مین تامل ٹائگرز کی گوریلا تحریک نے زور پکڑا۔ اس تحریک میں خودکش حملوں کرنے والوں کو بلیک ٹایئگرز کہا جاتا تھا۔ جو باقاعدہ خط لکھ کر تحریک میں شامل ہوتے۔ سری لنکا میں بلیک ٹائیگرز کے پہلے خودکش حملے میں 55 فوجی مارے گئے تھے۔

خود کش حملوں کی جدید اور موجودہ تاریخ القاعدہ کے نام سے جڑی ہوئی ہے۔ اگرچہ القاعدہ کا تانا بانا سرزمین عرب پر امریکی اور اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنانے والی تنظیمات سے ملتا ہے، اور یہ تنظیمیں نفاذ شریعت کے نام پرعرب سمیت افریقہ، روس اور ہندوستان میں خود کش حملے کرتی رہیں تاہم خود کش حملوں کا یہ سلسلہ 11/9 کے بعد تیزی سے شروع ہوا اور بہت کم وقت میں تقریباً پوری دنیا میں پھیل گیا۔ پاکستان اور افغانستان شدید طور پرخود کش حملوں کی زد میں ہیں جہاں عموماً عام شہریوں کا نشانا بنایا جاتا ہے۔

خودکش حملوں کے محرکات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہے۔ ایک خود کش کو ذاتی اغراض و مقاصد کے بھی استعمال کیا جاتا ہے، ریاست اپنے مقاصد کے بھی استعمال کر سکتی ہے اور کسی تحریک کے سیاسی یا مذہبی مقاصد بھی ہو سکتے ہیں۔ تاہم تاریخ سے ایک سبق سیکھنے کو ملتا ہے، ہر وہ نظریہ جو انسانی جان کو ”قربان“ کرنے/ہونے کے لیے تیار ہونے پر اکسائے، اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے، چاہے وہ حب الوطنی کے نام پر ہو، رنگ، نسل، زبان یا پھر مذہب کے نام پر۔ ممکن ہے کہ ایسے نظریات پل بڑھ کر پوری انسانیت کے لیے خطرہ بن جائیں۔

20/08/2018

قارئین یہ تھا قیصر فاطمی کا کالم آپ نے کیا سیکھا کیا سبق حاصل کیا  ہمیں معلوم نہیں، مگر  ہم اتنا کہیں گے کہ  زندگی کے سامنے ہار ماننے سے بہتر ہے آپ آخری وقت تک زندگی سے لڑ کر اس سے سبق  سیکھیں دشمن کا مقابلہ کرتے جائیں ،کیوں کہ مرنا سب سے آسان اور جینا سب سے مشکل کام ہے ،آپ زندہ رہ کر دشمن کی ظلم  سہہ  کر تدبیر سوچتے چلے جائیں گے ۔ کم سے کم آپ مرنے سے پہلے  اتنا بہادر تو بن جائیں گے کہ عبدالحکیم جیسے بزرگ باپوں کو اتنا کہنے کی ہمت کر پائیں گے کہ میں وطن کی آزادی کی خاطر  وقت ، حالات ہاتھوں زندگی کے سامنے ہار مان کر مزید مشکلیں جھیل   نہیں  سکتا، آپ میری وجہ سے دشمن کا لقمہ نہ بنیں، آپ محفوظ جگہ تلاش کریں  ، کیوں کہ میں نے فیصلہ کرلیا ہے ۔ میں زندگی سے مزید نہیں لڑسکتا میرے لیے مرنا بہتر ہے جسے سیاسی زبان میں  امر ہوجانا کہتے ہیں۔

آزادی پسندوں کو ایک بار پھر سر جوڑ کر سوچنا ہوگا کہ کیا  فدائین حملوں سے تحریک کو فائدہ  پہنچ رہاہے یا الٹا نقصان ؟  اگر  فدائین کی خون رائگان  نہیں جارہی ہے  تو انکے خاندان کا کیا قصور انھیں محفوظ راستہ نقصان سے پہلے دکھانا آپ کا فرض ہے ۔ وہ بیٹے بیٹیوں کی قربانی بھی دیں اس کے بعد ڈنڈے کھائیں لاپتہ ہوجائیں ،کیا انکے قربانیوں کے ساتھ انصاف ہے ؟ آپ اپنا فرض کس طرح نبھائیں گے  یہ آپ کا کام ہے۔ لوگ اپنے سر پیش کر رہے ہیں آپ کا کام ہے اس سے کام لینا ایسی جگہ کپھائیں جہاں طوق غلامی کے زنجیریں مضبوط ہونے بجائے  ٹوٹ جائیں ۔

اقوام متحدہ کی  قوانین دشمن   فوج پچھلے 76 سالوں سے  پاوں تلے روند رہی ہے ۔ہم ان کی پاسداری کرنا چاہئے  ۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ خود کش حملے انسانیت  آزادی کی تحریکوں اپنی عزت بچانے  کیلے  فائدہ مند  یا نقصاندہ  ہیں ؟ 

ہم کہتے ہیں کہ ہم عالمی قوانین کے مطابق لڑ رہے ہیں کیا عالمی قوانین میں خود کش حملوں کی گنجائش ہے ؟  ۔ اگر نہیں ہے تو کیا وہ ہم پر آسانی سے یقین کرلیں گے کہ ہم عالمی قوانین مطابق اپنی آزادی کیلے لڑ رہے ہیں؟ ۔

اگر دنیا کی آنکھیں  کبوتر کی طرح  بند نہیں  ہیں تو ہمیں بھی کھلی رکھنی چاہئے ، کیوں کہ  یہی ہماری قوم  وطن کی آزادی حاصل کرنے کی پہلی سیڑھی ہے  ۔


Post a Comment

Previous Post Next Post