بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم احتجاجی کیمپ کو 5396 دن مکمل



بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم احتجاجی کیمپ کو 5396 دن ہوگئے .

اظہار یکجہتی کرنے والوں میں خضدار سے انسانی حقوق کے ایکٹیوسٹ اور صحافی نعیمہ زہری اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔


دوسری جانب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے جاری بیان میں  کہا ہے کہ نام نہاد جمہوری حکومت اور آذاد عدلیہ کے دعوعداروں کی موجودگی میں خفیہ اداروں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہنوز جاری ہے جو امن کی پجاریوں اور انسانیت کے پرستاروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ 


ماما قدیر بلوچ نے مزید کہاہے کہ ظلم، بربریت، جبر تشدد جب حد سے تجاوز کرجاہے انسان  اپنی ہی دھرتی پر دیسی کہلاہے قومی تحریک کی رنگین خوابوں کو غلامی کے طوق پہناہے جاہیں پھولوں کی تھاکی کانٹوں سے بھر دی جاہے بنی نو انسان فرعونیت پر اتر آہے چراغوں کو جب گل کرکے ان پر خون کی کہی نہریں بہا دی جاہیں ظلمت کے گرداب میں جینے کا حق بھی جواب دے تو آفتاب کی تشریف آوری سے انقلاب کی ایک نوید جاگ اٹھتی ہے۔ دھوم والوں چہرے جو کسمپرسی، بے بسی کی کشمکش میں مبتلا تھے ان کے لبوں پر سے مسکراہٹوں کی لہریں بکھرنے لگتی ہیں۔ جدوجہد، انتقام کی ہوس اتنی شدت اختیار کرتی ہے کہ متاثرہ انسان خود ایک انقلاب بن جاتا ہے۔ انقلاب اس کی رگوں میں اتر کر پورے جسم میں پھیل جاتا ہے فلک بوس عمارتیں جو اپنے بازوں اور پھتریلی جلد سے طوفان کا رخ پھیر دیتی ہیں۔ ایک ایسا ہی طوفان اس خطے میں بپا ہونے کو ہے۔ 


انھوں نے بیان کے آخر میں کہاہے  کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں شدت اختیار کرتی ہوہی جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے میں ریاستی ادارے براہ راست ملوث ہیں جس کا اقرار ریاستی میڈیا عدلیہ سمیت پاکستانی، عالمی انسانی حقوق کے ادارے متعدد بار کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود بھی تاحال کوہی قابل ذکر اقدام سامنے نہیں آیا ہے۔ ہم عالمی اداروں، اقوام متحدہ انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں عالمی قوانین کی پامالی کے خلاف اپنا مینڈیٹ استمعال کریں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post