نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ تاریخ بھی ایک قومی ورثہ ہے اسکی حقیقت کو مفاداتات کے تحت تبدیل کرنا ماضی کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔ آبادکاروں نے اپنی منشا کے مطابق بلوچ قومی تاریخ کے کئی پنّوں کومٹانے کی کوشش کیں جس طرح برطانیہ کی شکست کے بعد بلوچ سر زمین پر سات ماہ اور پندرہ دن کی بلوچ حاکمیت کا خاتمہ یعنی اگست سے مارچ 1948 بلوچستان کی تاریخ میں نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے جسے کسی قیمت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ترجمان نے بیان میں کہا ہےکہ چار اگست 1947 کو تاج برطانیہ کی زیر صدارت نئی دہلی کانفرنس میں بلوچ حق خوداریت اور اسکی الگ حیثیت کو تسلیم کر کےگیارہ اگست وائس رائے ہاؤس نئی دہلی سے نشر ہوئے جبکہ بارہ اگست کو دنیا بھر کے میڈیا نے پاکستان کی جانب سے قلات کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرنے کے خبر کو شہ سرخیوں میں چلائی۔ مگر برطانیہ کی طویل مدتی چالبازیوں سے بالآ خر مارچ کے مہینے میں بلوچ اپنے سر زمین کی حاکمیت سے محروم کر دیا گیا۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے شکنجے میں پھنس کر کیچ کے نواب بائیاخان گچکی، نواب خاران میر حبیب اللہ نوشیروانی اور جام لسبیلہ جام غلام قادر نے سترہ مارچ کوبلوچ ریاست کو تھوڈکر اپنے علاقوں کو الحاق نامہ قبول کر کےپاکستان میں شامل کر لیا۔ اسی غیر آئینی اقدام کے خلاف ریاست قلات کی جانب سے کئی مراسلے لکھ کر احتجاج کیا گیا مگر سامراج و آبادکار بلوچ حق حاکمیت کے خاتمے کا فیصلہ کر چکے تھے۔
اسی طرح ریاست قلات کے دونوں ایوانوں نے بھی الحاق نامے کو مسترد کرتے ہوئے ریاست پاکستان کی جانب سے زبردستی قبضے اور خان قلات پر دباؤ ڈالنے کی بھرپور مذمت کی گئی لیکن بالآخر مارچ 1948 کو بلوچستان کے ساحل سے پنجگور تک دھاوا بول کر یلغار شروع کر دیا جبکہ 27 مارچ کو ریاست قلات کے مرکزی شہر قلات پر عسکری قوت کے سہارے قبضہ کر کے جبری طور پر الحاق نامے کو قبول کروایا گیا ۔ اسی دن سے آج تک بلوچ معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تعلیم و ترقی کے حوالے سے جمود کا شکار رہی ہے جبکہ اس تاریخی حقیقت کا ذکر کسی بھی نصابی کتاب سمیت تعلیمی اداروں میں نہیں کیا جاتا۔ بلوچ سرزمین کو اپنی تاریخی حیثیت کی بحالی کو حکمرانوں کو تسلیم کرنا ہوگا.
ترجمان نے کہاہے کہ اس پورے خطے خصوصاً سینٹرل ایشیاء کے تمام ممالک کیلئے بلوچ سرزمین کی خود مختاری اور حق حاکمیت ہی ان کیلئے مفید ثابت ہوگا اور بلوچستان کی حق حاکمیت ہی پُرامن ایشیاء کا ضامن ہوگا۔