انٹرنینشل انسٹی ٹیوٹ فار ایرانین سٹڈیز (رسانہ) نے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر دنیا ایک چوراہے پر کھڑی ہے۔
’امن کی راہ میں حائل رکاوٹیں اور سٹریٹیجک جوڑ توڑ‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس رپورٹ میں دنیا بھر کی سیاسی، معاشی اور دفاعی ڈائنیمکس کا مفصل تجزیہ کے بعد کہا گیا ہے کہ مسلسل ٹکراؤ کی صورتِ حال مزید عدم استحکام اور بڑے تنازعات کا باعث بن سکتی ہے، ان چیلنجوں سے نمٹنے اور زیادہ مستحکم اور پرامن بین الاقوامی نظام کی تشکیل کے لیے تعاون کی ضرورت ہے۔
انٹرنینشل انسٹی ٹیوٹ فار ایرانین سٹڈیز ایک غیر سرکاری تھنک ٹینک ہے جو ایرانی، علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تحقیق و تجزیہ پیش کرتا ہے۔
یہ ادارہ پچھلے آٹھ برس سے ہر سال مسلسل سالانہ سٹریٹیجک رپورٹ شائع کر رہا ہے۔
رسانہ کی 2023 کی سٹریٹیجک رپورٹ کے تین اہم نکات ہیں: بین الاقوامی سطح پر ہونے والے اہم واقعات، سعودی پالیسی میں 2023 کے دوران ہونے والی تبدیلیاں اور ایرانی صورتِ حال کا تجزیہ۔ ذیل میں رپورٹ میں زیرِ بحث آنے والے اہم نکات کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کی غیر یقینی صورتِ حال
رپورٹ میں مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال، خاص طور پر ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن کے بعد سے اسرائیل کی غزہ پر جارحیت سے پیدا ہونے والے تنازعے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے خطے پر بےیقینی اور عدم استحکام کے بادل چھا گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے محرکات میں امن کی کوششوں میں رکاوٹ اور اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت کا اقتدار میں آنا شامل ہیں۔
اس حکومت نے دو قومی حل کی کوششوں کو سبوتاژ کیا اور آبادکاروں کی جانب سے فلسطینیوں کی زمینیں چھیننے کے عمل سے چشم پوشی برتی۔
اس کے علاوہ طوفان الاقصیٰ سے قبل ہزاروں آبادکاروں نے مسجدِ اقصیٰ پر بھی دھاوا بولا اور فلسطینی شہریوں اور ان کی جائیدادوں پر سینکڑوں حملے کیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ پر حملے کے بعد سے اسرائیلی سیاسی بحران میں شدت آ گئی ہے جس میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے ’اسرائیلی تاریخ کی سب سے زیادہ شدت پسند حکومت‘ گر سکتی ہے۔
رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ غزہ کی جنگ کی وجہ سے فلسطین کا مسئلہ دنیا بھر میں اجاگر ہوا ہے۔
رپورٹ میں اسرائیل کی غزہ کے خلاف جنگ کے تین ممکنہ منظرنامے پیش کیے گئے ہیں:
اسرائیل کی جنوبی غزہ کی جانب پیش قدمی جاری رہے گی، جس سے مغربی کنارے میں بھی تشدد پھوٹ سکتا ہے اور حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل پر حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ باب المندب میں حوثیوں کی کارروائیاں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔
دوسرا منظرنامہ ایک ڈیڈلاک ہے جس میں جنگ غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ اس صورت میں خطے کے دوسرے ملکوں تک جنگ کے شعلے پھیلنے کا خدشہ موجود ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر دباؤ اتنا بڑھ جائے جس سے جاری جنگ کے خاتمے اور یرغمالوں کی رہائی کا کوئی معاہدہ طے پا جائے۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتِ حال بےحد پیچیدہ اور غیر یقینی ہے۔
سعودی عرب کا وژن 2030
اس سالانہ رپورٹ میں سعودی عرب کے وژن 2030 کا بھی مفصل احاطہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ 2030 اس وژن کی تکمیل میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس کے دوران کئی ٹھوس اور زمینی اقدامات دیکھنے کو ملے۔
ملکی سطح پر اس وژن کے تحت کئی تبدیلیاں سامنے آئیں جن میں خاص طور پر خواتین کو بااختیار بنانا شامل ہے۔
سعودی خواتین دفاع اور خلا جیسے کلیدی میدانوں، جن پر ایک عرصے سے مردوں کی اجارہ داری تھی، نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں جس سے مملکت کے لیے ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا میں خواتین کے بلند مقام کی علامت کے طور پر سعودی عرب میں نیا منظر نامہ تیار ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ سعودی عرب نے تعلیم، ایجادات، سائنسی تحقیق، مصنوعی ذہانت، شہری شناخت کے تحفظ، اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے میدانوں میں پیش رفت کی ہے۔
اس کے علاوہ سعودی عرب نے کھیلوں کے ذریعے ملک کی سافٹ پاور کو فروغ دیا اور 2030 ایکسپو منعقد کرنے کا مقابلہ جیت لیا۔
رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں ترقی کی رفتار تیز ہوتی دکھائی دیتی ہے، اور مستقبل قریب میں متنوع شعبوں میں یہ ترقی جاری رہے گی، تاہم یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ متعدد علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں سعودی عرب کے اس تجربے پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اور اس دوران کئی ممکنہ چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں جاری انتشار ایک بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔
چین اور امریکہ کے درمیان رسہ کشی اور ’چِپ وار‘
اس کے علاوہ رپورٹ کا ایک اہم موضوع چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت اور مشرقی ایشیا میں امریکہ کی جانب سے چین کے گھیراؤ کی کوششیں اور چین کی جوابی کارروائیاں ہیں۔
رپورٹ میں تجزیہ پیش کیا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ رسہ کشی 2024 میں بھی جاری رہے گی، البتہ دونوں ملک براہِ راست ٹکراؤ سے گریز کریں گے۔
دوسری جانب امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ وہ مشرقی ایشیا میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک سٹریٹیجک توازن قائم کیا جائے جس کا محور چین کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر مقابلہ نہ ہو بلکہ ایشیائی ملکوں کے درمیان مسابقت ہو۔
اس حکمتِ عملی کا مقصد یہ ہے کہ چین کے ساتھ براہِ راست ٹکر کے نتیجے میں ہونے والے نقصان اور امریکی طاقت میں ممکنہ کمی سے بچا جا سکے۔
اہم امریکی اتحادی طاقتوں، خاص طور پر جاپان، نے اپنی فوجی ترجیحات میں اہم تبدیلیاں کی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ اور چین کے درمیان الیکٹرانک چپ کے میدان میں بھی محاذ آرائی جاری ہے۔ امریکہ اور چین دونوں نے معمول کی کسٹم ڈیوٹی وغیرہ جیسے اقدامات سے آگے بڑھ کر چپ کی برآمد پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں تاکہ حریف کی کمپیوٹر کی صنعت میں قیادت میں رخنہ ڈالا جاسکے۔
امریکہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے یورپ نے چپ کی برآمد پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس کے جواب میں چین نے عام تاثر کو غلط ثابت کرتے ہوئے حساس چپ ٹیکنالوجی میں خاصی پیش رفت کی ہے اور چینی کمپنی ایس ایم آئی سی نے ہواوے سمارٹ فون کے لیے سات نینومیٹر کی چپ بنا کر اہم سنگِ میل عبور کر لیا ہے۔
مصنوعی ذہانت سے لاحق خطرات
رپورٹ میں ایک اہم میدان مصنوعی ذہانت اور خاص طور پر دفاعی صنعت میں اس کا استعمال ہے۔
مصنوعی ذہانت کی وجہ سے جنگی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے، اور اس میں برق رفتار ترقی نے روایتی اسلحے کے بارے میں نظریات کو بدل دیا ہے۔
اس ٹیکنالوجی سے وابستہ خدشات اس وقت مزید بڑھ جاتے ہیں جب یہ صلاحیتیں دہشت گردوں یا باغی گروپوں جیسے غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں میں آ جائیں۔
روس یوکرین جنگ
رسانہ کی رپورٹ میں بین الاقوامی میدان میں روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ اہم موضوع ہے۔ رپورٹ کے مطابق یوکرین کی جانب سے روس پر جوابی حملہ ناکام رہا ہے جس کی وجہ سے جنگ تعطل کا شکار ہوگئی ہے اور کوئی بھی فریق اہم پیش رفت کرنے میں ناکام رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بادی النظر میں یہی لگ رہا ہے کہ بڑھتے ہوئے معاشی اور سیاسی بوجھ کے باوجود اس تنازعے کے جلد حل ہونے کے امکانات کم ہیں اور خدشہ ہے کہ یہ ایک طویل عرصے تک جاری رہے گا۔
اس تنازعے کی وجہ سے یورپ بھی بےیقینی کی صورتِ حال کا شکار رہے گا اور ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔
روس یوکرین جنگ ہی کا شاخسانہ ہے کہ جرمنی نے حال میں قومی سلامتی پالیسی جاری کی ہے۔
رسانہ کی رپورٹ میں اس تنازعے کے پس منظر میں نیٹو کے ارکان میں توسیع کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
تاہم دوسری جانب اسرائیل کی غزہ پر جارحیت نے روس یوکرین جنگ پر سے توجہ ہٹا دی ہے اور اب امریکہ اور یورپ کی نظریں مشرقِ وسطیٰ پر مرکوز ہو گئی ہیں۔
اسی وجہ سے مغرب کی یوکرین کے لیے امداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی
2023 میں رونما ہونے والی ایک اہم پیش رفت سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بحالی ہے جس کا آغاز چینی تعاون سے مارچ 2023 میں بیجنگ میں ہوا۔
اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مکالمے کا سلسلہ شروع ہوا جس میں دونوں نے ایک دوسرے کی سالمیت کا احترام کرتے ہوئے ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے پرہیز کا اعادہ اور علاقائی تنازعات، خاص طور پر یمن کے معاملے پر عدم اتفاق میں کمی لانے کا فیصلہ کیا۔
2023 ہی کے دوران جدہ سربراہی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں شام کو 2011 کے بعد دوبارہ عرب لیگ میں شامل کیا گیا۔
خلاصہ
رسانہ کی رپورٹ 2023 کا لبِ لباب یہ بنتا ہے کہ بین الاقوامی نظام کو ایک نازک صورت حال کا سامنا ہے۔
مسابقتی اتحاد: بڑی طاقتیں دنیا بھر میں اپنے اثر و رسوخ کے حلقے قائم کر رہی ہیں، جس سے متضاد مفادات پیدا ہو رہے ہیں اور تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عالمی چیلنجوں سے چشم پوشی: طاقت کی اس جدوجہد پر توجہ مرکوز کرنے سے موسمیاتی تبدیلی، دہشت گردی اور پناہ گزینوں کے بحران جیسے فوری مسائل سے توجہ بٹ گئی ہے۔
مشرق وسطیٰ خطرے میں: یہ خطہ اپنی تاریخی اور دفاعی اہمیت کے ساتھ خاص طور پر عدم استحکام کا شکار ہے۔
شکستہ نظام: موجودہ بین الاقوامی قوانین اور میکانزم تنازعات اور بحرانوں سے نمٹنے میں ناکام ہو رہے ہیں، جیسا کہ اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے ردعمل میں دیکھا گیا ہے۔
مجموعی طور پر دنیا ایک چوراہے پر کھڑی ہے۔ مسلسل ٹکراؤ کی صورتِ حال مزید عدم استحکام اور بڑے تنازعات کا باعث بن سکتی ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے اور زیادہ مستحکم اور پرامن بین الاقوامی نظام کی تشکیل کے لیے تعاون کی ضرورت ہے۔