شال سول ہسپتال ، پولیس لواحقین کو نعشیں دینے سے کیوں انکاری ہے ، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ماہ رنگ بلوچ پولیس کے ساتھ مزاکرات ناکام ہونے کے بعد احتجاج کی کال دیدی ،جس کے بعد شہر سے لاپتہ افراد کے لواحقین ، سمیت ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے خواتین حضرات سول ہسپتال پہنچ کر احتجاج شروع کردیا جس کے بعد پولیس اور سول ہسپتال انتظامیہ گھٹنے ٹیک کر مچھ جعلی مقابلے میں مارے جانے والے لاپتہ افراد کی نعشیں انکے ورثاء کے حوالے کردیئے ۔
اس موقع پر ماہ رنگ بلوچ نے پولیس سے سوال کیاکہ آپ کس بنیاد پر جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے لاپتہ افراد کے لواحقین سے دستخط لیکر انکو دہشتگرد انکے لواحقین سے قرار دینا چاہتے ہیں۔؟
جبکہ یہ لاپتہ تھے ، تو اپنا کاغذ تبدیل کرکے لکھو کہ یہ لاپتہ تھے اس سچ کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا ۔
آپ کو علم ہے شال سول ہسپتال میں گزشتہ روز 6 افراد کی نعشیں لائی گئی تھیں جن میں سے 4 نعشوں کی شناخت ہوگئی۔ اس حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ مذکورہ لاشیں لاپتا افراد کی تھیں جن کے نام ہماری فہرستوں میں تھے۔
مچھ واقعے کے بعد اس وقت 5 افراد کی ایسی نعشیں لائی گئی ہیں جن میں سے 4 نوشوں کو ان کے لواحقین نے شناخت کیا ہے۔ جو پہلے سے ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدہ تھے۔ جبکہ باقی ایک نعش کے حوالے سے بھی ہمیں خدشہ ہے کہ وہ بھی جبری گمشدگی کے شکار افراد میں سے ہونگے ۔
جن چار نعشوں کی شناخت ہوگئی ہے ان میں بشیر احمد مری ولد حاجی خان اور ارمان مری ولد نہال خان مری جنہیں 2 جولائی 2023 کو جبری طور پر اٹھایا گیا تھا ، اور صوبیدار ولد گلزار خان ہرنائی بازار سے 9 ستمبر 2023 کو جبری گمشدہ کیا گیا تھا ۔جن کے لواحقین نے اسلام آباد دھرنے میں شرکت کرتے ہوئے ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا تھا اور چوتھی لاش کی شناخت شکیل احمد ولد محمد رمضان سکنہ زہری سے ہوئی جن کے خاندان کے مطابق انہیں 4 جون 2023 کو جبری گمشدہ کیا گیا تھا،اور ان کے جبری گمشدگی کے تمام تر ثبوت موجود ہیں۔