بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5354 دن ہوگئے ۔اظہار یکجہتی کرنے والوں میں سیاسی اور سماجی کارکنان میر محمد بلوچ، محمد حسن بلوچ محمد یوسف بلوچ نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر اظہار یکجہتی کرنے والوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے وائس فار مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نےکہا کہ بلوچستان میں آگ اور خون کے مناظر کے سیاہ سرخ رنگ ہرگزرنے والے دن کے ساتھ گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ جس میں بلوچ سیاسی رہنماوں کارکنوں نوجوانوں اور عام شہریوں کا بہتا لہو حمکرانوں کے خلاف نفرت اور انتقام کے شعلوں کو مزید بھڑکا رہا ہے۔ خاص طور پر بلوچ کارکنوں کےجبری اغوا کےبعد ان کی تشدد زدہ لاشوں کی صورت میں بازیابی نے بلوچ سماج میں ہر طرف مزمتی چنگاریاں بھر دی ہیں۔جس کاعکس کسی بھی کارکن کے جبری اغوا قتل کے شدید عوامی ردعمل میں دیکھا جاسکتا ہے۔
مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچ قوم کے ان بگڑنے والے تیوروں سے کوئی سبق نہیں سیکھا جارہا ہے اور بلوچ نوجوانوں کارکنوں کےجبری اغوا کےبعد انہیں انسانیت سوز تشدد کے ذریعے قتل کرنے کے واقعات میں تیزی آگئ ہے ۔
ماما قدیربلوچ نے کہا کہ بعض مبصرین نے کہا کہ بلوچوں کی بے گور کفن ملنے والی مسخ شدہ نعشیں بلوچ حلقوں کے ان خدشات و بیانات کی تصدیق کرتی ہیں کہ بلوچ سماج میں پھیلی ہوئی مزاحمت پر قابو پانے میں ناکامی کے بعد بلوچ نسل کشی کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے ،اور ایک بار پھر مشرقی بنگال کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ جس قسم کے ذرائع سے بنگالیوں کا قتل عام کیا گیا وہی طریقہ یہاں بھی اختیار کیا جارہا ہے لیکن اس فکر عمل نے جہاں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں بدل دیا وہاں بلوچستان میں بھی اسی قسم کے نتائج کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں۔
ان حلقوں کےمطابق بلوچ نسل کشی جیسے واقعات سانحات بلوچ قوم اور حکمرانوں کے مابین خون کی وہ گہری لکیریں اور فصلییں بلند کررہے ہیں جن کو پار کرنا ممکن نہیں ہوسکے گا اور حکمرانوں کو بدنامی اور ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا۔جس کے لیے بلوچ رہنماوں کارکنوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔۔۔