توتک میں خونی آپریشن کو 13 سال گزر چکے، لواحقین کو اب تک انصاف نہیں ملا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی




بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے 13 سال قبل 18 فروری کو توتک میں ہونے والے خونی آپریشن اور سندھ کے سیاسی و سماجی کارکن ہدایت لوہار کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا یےکہ آج سے 13 سال قبل 18 فروری کو توتک میں خونی آپریشن کیا گیا ۔ جس میں دو افراد کو شہید اور تقریباً 16 دیگر کو گمشدہ کیا گیا، جو آج تک جبری گمشدہ ہیں۔ اسی سر زمین پہ 25 جنوری 2013 میں اجتماعی قبروں کے دریافت نے بلوچ نسل کشی کو بیان کرنے کے لیے ایک نئی درد بھری  کہانی دے دیا، جسے بلوچ یکجہتی کمیٹی بلوچ نسل کشی کے علامتی روز پہ منانے کا اعلان کر چکی ہے۔ 

توتک آپریشن میں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد اب تک جبری طور پر گمشدگی کا شکار ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ اجتماعی قبروں میں دفنائے گئے جبکہ آپریشن کے دوران دو نوجوانوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ توتک آپریشن کے بعد سے وہاں پر لوگوں کو مکمل طور پر ڈیتھ اسکواڈز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور عام لوگوں کی زندگی مکمل طور پر اجیرن بنا دی گئی ہے۔ 

ترجمان نے کہا ہےکہ بلوچستان میں ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جس دن بلوچستان کے کسی علاقے میں آپریشن نہیں ہو رہی بلکہ آئے دن کسی علاقے یا گاؤں میں آپریشن کے نام پر لوگوں کو اٹھانا اور بعدازاں انہیں قتل کرنا ریاست کا وطیرہ بن چکا ہے۔ حالیہ دنوں بلوچستان میں جاری آپریشنز میں اضافہ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جبکہ ایک طرف جہاں بلوچوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے وہی دوسری جانب پاکستان کے اندر موجود دیگر محکوم اقوام کے خلاف ریاستی ظلم و ستم کا سلسلہ بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔

انھوں نے بیان میں کہاہے کہ  ہدایت لوہار جو سندھ بھر میں جبری گمشدگیوں جیسے غیر انسانی عمل کے خلاف ایک مضبوط آواز تھے انہیں بے دردی سے قتل کرنا مظلوم اقوام کے خلاف ریاستی تشدد کا جاری سلسلہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہدایت لوہار کو قتل کرتے ہوئے ریاست نے مظلوم اقوام کو پیغام دی ہے کہ پاکستان کے اندر موجود مظلوم اقوام مضبوطی کے ساتھ اس ریاستی ظلم کے خلاف یکجاہ و یکمشت ہوکر آواز اٹھائیں اور جدوجہد کریں۔ بلوچستان اور سندھ سمیت ریاست پاکستان کے کسی بھی کونے میں مظلوموں کی پرامن جدوجہد سے خائف نظر آتی ہے اس لیے جہاں بھی کوئی سیاسی کارکن اپنے لوگوں کی حقوق کیلئے کھڑا ہوتا ہے اور آواز اٹھاتا ہے ریاست اس کے خلاف صفت بندیاں شروع کر دیتا ہے۔ پاکستان میں مظلوموں کی آوازوں کو دبانے سے ریاست مظلوم اقوام کو ان کے انسانی حقوق سے محروم رکھنا چاہتا ہے اور اسی کوشش میں وہ ہدایت لوہار جیسے سیاسی کارکنوں کو نشانہ بناتی ہے۔ ہم اس قتل کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں قانون میں کٹہرے میں لانے کا مطالبہ رکھتے ہیں۔

ترجمان نے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کی بندش، توتک آپریشن کے دوران اٹھائے گئے جبری طور پر لوگوں کی بازیابی، ہدایت لوہار کے قتل میں ملوث مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا ہےکہ ریاست کو سمجھنا چاہیے کہ بلوچستان کے لوگ انسان ہیں جانور نہیں جنہیں جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بناکر جب چاہے قتل کر دیتی ہے۔ بلوچستان میں حالیہ اٹھنے والی عوامی تحریک انہی ریاستی مظالم کا ردعمل تھا لیکن ریاست ان عوامی تحریک سے بھی سبق حاصل نہیں کر رہی ہے اور جعلی مقابلوں سمیت قتل و غارت گری اور لوگوں کو اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جسے فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post