لواحقین لانگ مارچ کے شرکا اپنے پیاروں کی بازیابی تک واپس نہیں جائیں گے، حامد میر



اسلام آباد (مانیٹر نگ ڈیسک ) سینئر صحافی حامد میر نے اسلام آباد میں جاری بلوچ لواحقین لانگ مارچ کے دھرنا کیمپ جاکر شرکاءسے بات چیت کی۔ حامد میر نے اپنے سوشل میڈیا اکاﺅنٹ پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ اسلام آباد میں بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لواحقین کی طرف سے دئیے جانے والے دھرنے میں ایک 85 سالہ خاتون بھی شامل ہے جو بلڈ پریشر کے علاوہ دل کی مریضہ ہے وہ سخت سردی میں گھر واپس جانے کے لئے تیار نہیں کہتی ہے اسکا بیٹا شاہنواز بازیاب ہو گا تو گھر جائے گی۔

بالاچ بلوچ کی بہن نجمہ بلوچ کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی نے میرے بھائی کو عدالت میں پیش کیا تو ہم بڑے خوش تھے بھائی نے وہاں ہمیں کہا کہ وہ بے گناہ ہے اور رہا ہو جائے گا ۔ لیکن دو دن بعد اسے جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔  نجمہ نے اپنے بھائی کے قاتلوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے ہم پنجاب کے عام لوگوں سے ملنے آئے ہیں وہ پیغام لیکر آئے ہیں جو 75سال سے ان تک نہیں پہنچا، اسلام آباد کی عورتیں، طالب علم، پروفیسر اور ڈاکٹر ہمارے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے آتے ہیں، رات کو بارہ بجے عورتیں ہمارے لئے سوپ لے آتی ہیں۔

ناصر بلوچ کا تعلق گوادر سے ہے اسکا بیٹا کافی دن پہلے اٹھا لیا گیا تھا وہ تربت سے اسلام آباد آنے والے لانگ مارچ میں شامل ہو گیا تو اسکے بیٹے کو رہا کر دیا گیا لیکن وہ بدستور اسلام آباددھرنے میں بیٹھا ہے کہتا ہے باقی لاپتہ نوجوان بھی میرے بچے ہیں وہ سب بازیاب ہونگے تو واپس جاو¿ں گا۔

بلوچ عورتوں اور بچوں نے پچھلے سال کوئٹہ میں بھی دھرنا دیا تھا اسوقت کی حکومت کے وفاقی وزرا ان کے پاس مذاکرات کے لئے کوئٹہ آئے تو انہیں لاپتہ افراد کی ایک لسٹ دی گئی لیکن دو ماہ بعد اس لسٹ میں شامل ایک شاعر کو جعلی مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔


Post a Comment

Previous Post Next Post