ہم نے ہر اقتدار اور طاقت اپنے ہاتھ میں رکھنے ولاوں کا مطالعہ یا گنے چنے لیڈروں کا مشاہدہ کیا ہے ، وہ ابتداء میں طاقت حاصل کرنے کیلے عوامی نعرہ تو لگاتے ہیں ،مگر
ایوانوں میں پہنچ کر اور طاقتور ہوکر فرعون بن جاتے ہیں
، پھر عوام قریبی دوست انھیں کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں اور کیوں نہ آئیں کیوں کہ وہ اقتدار میں پہنچ کر دن بدن امیر بن جاتے ہیں۔ امیری کی ایک مصیبت ہے امیر یا لیڈر بنتے ہی تحائف ان کی طرف سے بھی آنا شروع ہوجاتے ہیں جو تنگ دستی کے زمانے میں آپ کو دیکھ کر راستہ بدلتے یا گزرتے وقت ایک ایسا جملہ کستے رہتے تھے جس کا مقصد آپ کو اندرونی ایسا گھرا چوٹ پہنچانا مقصود تھا جس کی وجہ سے آپ زندگی بھر سنبھل نہ سکیں ۔ مگر یہ رویہ موقع پرست پر لاگو نہیں ہوتا کیوں کہ بعد میں وہی لوگ انکے اقتدار میں آنے پر ایسے چاپلوسی کرتے ہیں کہ جیسے بچپن سے ہی اسی نے گود لیکر گویا آیا بن کر انھیں سنبھالا ہے ۔ اور اب بھی وہ اسکے لیے جی رہے ہیں ۔
ہمارا بلوچ سماج بھی معاشرہ کا حصہ ہے اور دوسری جانب وہ ہر وقت غلامی کی چکی میں پستا آرہاہے ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ گرم سمندر پر واقع ہونے کی وجہ سے ہر ظالم وحشی حکمران کا گزر جب بھی اس خطے سے ہواہے تو انھوں نے بلوچ کو بھی لتاڑا ہے ۔ بلوچ کی مجبوری رہی ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے یا مٹ جائے ۔
جس کی جتنی طاقت انھوں نے مزاحمت کی ہے، بدقسمتی سے آج تک بلوچ نے ایک جھنڈے کے نیچے رہ کر دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکاہے، جس کی مختلف وجوہات رہے ہیں ، سب سے پہلا منظم حکومت کا نہ ہونا ،مواصلات کی وجہ سے ایک دوسرے سے رابطہ کا فقدان ، ایک دوسرے سے ذاتی دشمنی جو شروع ہوکر ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ،دیگر چھوٹے موٹے رکاوٹیں بھی رہے ہیں جس کی وجہ سے دشمن کے سامنے وہ اکھٹے نہیں ہوسکے ہیں ۔ نتیجتا وہ اقتدار کھوکر آقاؤں کے غلاموں کے غلام بن گئے ہیں ۔
یہاں قابل ذکر بات یہ کہ جب تک آپ باقاعدہ ایک نظام لاگو نہیں کرتے اس وقت تک آپ کا ملک عوام منتشر ہوکر گروہوں میں بٹ جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے انگریز نے آکر ہر قبیلے کیلے ایک مستقل ناسور پیدا کرکے اس قبیلہ پر بٹھا دیا جو لوٹتے اپنوں کو ہیں اور ان پر خرچہ کرنے بجائے کھلاتے ان آقاوں کو ہیں جس کا تلوار ان کے سرپر ہروقت لٹکتا رہتاہے۔
ان کی حالت دیکھ کر چند موقع پرست اکھٹے ہوکر اپنا اپنا گروہ بناکر عوام کا مسیحا بننے کے خواب دکھا کر نکل پڑتے ہیں۔ چونکہ عوام ظالم آقاؤں انکے ٹاؤٹس کے نسل درنسل عوام پر مسلط ہوکر استحصال سے تنگ آکر موقع پرستوں کا انتخاب کرکے ان کا ساتھ دیکر انھیں مالی ،افرادی مواصلاتی کمک دیتے ہیں یہ سمجھ کر کہ یہ ان سے بہتر ہونگے۔ کیوں کہ موجودہ ڈکٹیٹر وں کے ہاتھوں انکے جمع پونجی کے علاوہ ہر روز ان کی ننگ ناموس کی عزت تار تار کی جاتی ہے، ں، بے شک یہ مسیحا نہیں بن سکتے۔لہذا جب تک وقت اور حالات قومی لیڈر پیدا نہیں کرتے ان سے کام چلائیں۔
اس طرح موقع ہاتھ آنے پر یہ گروہ عوامی نعرہ لگاکر ،دوسری جانب گننگا میں ڈبکی لگاکر کمائی شروع کردیتے ہیں ۔ ان کو سب سے پہلے اپنے خاندان کی پیٹ پوجا ،گاڑی بنگلہ ،بینک بیلنس کی فکر لاحق ہوتی ہے یہ بھی ہاتھی کی طرح عوام کو دانت دکھاکر ، عوم کا جمع پونجی کھانا شروع کردیتے ہیں۔ مگر مجموعی عوام کیلے فائدہ کا پہلو یہ وقتی نکلتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہوجاتےہیں ۔اور عوام کو تیسرے آپشن کیلے سوچنے کا وقت مل جاتاہے کہ وہ ان دونوں کے علاوہ ایک اجتماعی لیڈر چن کر اس کے سرپر پگڑی رکھیں جو وہ ایک گروہ قبیلہ کے مفادات سے بڑھ کر قوم اس سے بڑھ کر اس قوم کو بھی ساتھ میں لیکر چلنے کا سوچتے ہیں جس کے بغیر آپ کی طاقت ادھوری اور دشمن کے ہاتھوں منتشر ہے ۔( جو صدیوں سے ایک زمین ایک چھت نیچے رہ کر ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھاانا تو کھاتے ہیں ، مگر اٹھتے ہی قابضوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر زخم کھانے باوجود ایک دوسرے پر مرہم رکھنے بجائے زخم کریدتے رہتے ہیں )۔
قوم اسی لیڈر کا بغیر کسی صنفی تضاد چناو کرلیتاہے جو رضیہ سلطان بننے کا اہل ہو ۔ یہ بلوچ کی خوش نصیبی ہے وہ کئی صدیوں کے بعد ایک مرکز کے قریب پہنچ گیے ہیں انھوں نے بلوچی دستار بھی وقت حالات کے نبض پر ہاتھ رکھ کر اس بار ایک صنف نازک پر رکھ دیا ہے۔
اب ہمیں چاہئے اس دستار کی حفاظت نہ صرف دشمن سے کریں بلکہ ان نام نہاد قوم پرستوں ،پیٹ پرستوں ،موقع پرستوں ، نام نہاد دانشوروں ، سرداروں ،منافق مڈل متوسطہ گروہوں، ڈیتھ اسکوائڈز ، لینڈ مافیا ،منشیات فروشوں ، آئی فون مافیا نام نہاد لیڈروں سے جو لوگوں میں آئی فون اس شرط پر بانٹتے پھر رہے ہیں کہ ان کا ہی سوشل میڈیا پرگن گا کر ایکس پر پوسٹ ری پوسٹ کرکے انھیں ہیرو بنانے کیلے سر توڑ کوشش کریں گے ۔ ان گروہوں سے جو پیسہ دیکر اپنے اپنے نام پر انقلابی گانے ریلیز کرواتے ہیں ۔
ان میک اپ مافیا سے بھی بچانا ہوگا جو خود تو خداداد صلاحیتوں سے محروم ہیں، مگر وہ موقع پرستوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر ریموٹ کے ذریعے دستار چھیننے کی دوڑ میں دانستہ غیر دانستہ ،ارادی غیر ارادی شامل ہوجاتے ہیں ۔ اور ان سیاسی گدوں سے بھی بچانا ہوگا جو ہزاروں شہیدوں اور ہزاروں دشمن ہاتھوں لاپتہ افراد کے نام پر ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی سیاسی سماجی پارٹیاں تنظیمیں بناکر بلوچ قوم کو متحد ہونے نہیں دیتے نہ انکے غمخواروں سے ملنے دیتے ہیں جن کا درد ایک ہے ۔ یہ فیصلہ بھی عوام کو اس لیئے کرنا ہوگا انھیں روکنا ہوگا ۔
اگر حقیقت میں دیکھا جائے عوام نے ہمیشہ ثابت قدم رہ کر ثابت کیا ہے کہ عوام نے ہر وقت اپنا حق ادا کرکے بلوچ رہنما کا انتخاب کر دیاہے ۔ مگر گروہی سہی ان رہنماؤں کی غیر ذمہداری سمیت سیاسی سماجی پارٹی تنظیموں کی بدنیتی رہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سہارا دینے کے بجائے ہر ایک نے رواداری نہیں دکھاکر دستار ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش میں الجھ کر قومی آزادی کے راستے کو طوالت دی ہے ۔
حالیہ شال کے جلسہ عام میں عوام نے ریفرنڈم ذریعے دشمن سمیت اپنوں کو رہنما منتخب کرکے دکھا یاہے کہ وہی رہنما منتخب کرنے کے اہل ہیں ، اب ہماری ذمہداری ہے عوام کے انتخاب کا احترام کرتے ہوئے ہر کوئی لابنگ کر کے اپنی مرضی کا داعی بھیجنے کر بچے کا سر چکرانے کے بجائے اس کا قدم قدم پر ساتھ دیکر مثبت رہنما ئی کریں ، جسے عوام نے بلوچی دستار سے نوازا اور رہنما چن لیا ہے ، تاکہ وہ اپنی مقصد پر ڈٹ کر چل سکے۔ اگر ساتھ نہیں دیا گیا تو یہ بھی پہلے والے رہنماؤں کی طرح ایک ہی گروہ کا ہوکر پھر ان ہی کا استحصال کرنا شروع کرے گا (جس طرح ایک سانپ اپنے ہی بچوں کو کھاجاتاہے)۔ نتیجے ہرکوئی ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے میں مشغول ہوگا، دوسری جانب غلامی کا گلے میں پڑا کڑا اور موٹا ہوتا جائے گا ۔
اس طرح ہمارے پیارے لاپتہ ہوتے جائیں گے،دشمن ان کی نعشیں جعلی مقابلوں ماورائے عدالت قتل کرکے پھینکتے رہیں گے ۔ پھر ہماری مائیں بہنیں پیاروں کی بازیابی کیلے چیخ چیخ کر دشمن کے دروازے پہنچ جائیں گے، وہاں پھر ان کا استقبال لاٹھیوں ڈنڈوں ،ٹھنڈے گرم پانی کے توپوں سے کیا جائے گا، انھیں روڈوں پر انھیں پھر گھسیٹ گھسیٹ کر جیلوں میں ڈال کر انکی ننگ ناموس تار تار کرکے انھیں چھوڑ دی جائے گی ، اور ہم پھر دشمن کو چھوڑ کر منہ لٹکاکر آنکھیں نیچے کرکے ایک دوسرے کو الزام دیتے رہیں گے کہ یہ آپ کی وجہ سے ہوا وہ کہے گا یہ آپ کی وجہ سے ہوا ۔ پھر عوام مجبورا کسی اور کے انتخاب کیلے کمر کسنے پر مجبور ہونگے ، تب تک چڑیا کھیت چگ کر زمین بنجر چھوڑ کر جا چکا ہوگا اور پھر فصل تیار ہونے کی خبر سونگھ کر بلا خوف آکر چگ جائے گا ۔ اور ہمیں احساس دلاتا رہے گا کہ آباو اجداد سے غلام ہو اور غلام ہی رہنا تیری مقدر میں لکھا ہے ۔