لاپتہ افراد کا مسئلہ اجتماعی سطح پر ظلم ہے۔مفتی تقی عثمانی



پاکستان کے معروف عالم مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے جمعہ کے بیان میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے اسے ’’اجتماعی سطح پر ظلم‘‘ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ظلم کا نتیجہ کبھی صلاح و فلاح نہیں ہو سکتا۔”

مفتی نے کہاکہ ہمارے ملک میں کسی انسان کی کوئی قدرو قیمت نہیں رہی، کسی بھی شخص کو آکر پکڑ لیا جاتا ہے، غائب کردیا جاتا ہے، وہ لاپتہ ہوجاتا ہے۔ اور اس کے ماں باپ کو اس کے بہن بھائیوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ اس کو کیوں گرفتار کیا گیا، اسے کیوں پکڑا گیا؟ اسے ہم سے کیوں دور کیا گیا؟

انہوں نے کہاکہ اگر کسی شخص کو کسی جرم میں گرفتار جائے تو اس میں شریعت کا قاعدہ بھی یہ ہے اور قانون کا تقاضہ بھی یہ ہے کہ اس کے اوپر مقدّمہ چلایا جائے، اس کے بارے میں تفتیش کی جائے، علی الاعلان اس پر مقدّمہ چلا کر یہ ثابت کیا جائے کہ اس نے فلاں جرم کیا ہے اور اس جرم کی وجہ سے اسے سزا دینی ہے، لیکن مقدّمہ چلائے بغیر اور کسی کا جرم ثابت کیے بغیر اسے اٹھا لینا،اور اٹھا کر بند کردینا اور اس پر ظلم و ستم کرنا، اس پر تشدد کرنا، یہ نہ صرف قرآن کے خلاف ہے بلکہ اس حدیث کے بھی خلاف ہے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی کہ [کوئی مسلمان دوسرے مسلمان پر ظلم نہیں کرتا۔]‘‘ ’’پاکستان کے متعدد علاقوں میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سالہا سال سے پھنسا ہوا ہے، بے شمار افراد ہیں جو لاپتہ ہیں، جن کا پتہ ہی نہیں کہ کہاں ہیں؟ کس حالت میں ہیں؟ہر شخص اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچے کہ اگر اس کا بیٹا، اس کا بھائی، اس کا باپ اس طرح گم شدہ ہو جائے کہ اس کا پتہ ہی نہ چلے کہ کہاں گیا؟ زندہ ہے یا مردہ؟ تو اس کے دل پر کیا گزرے گی؟‘‘

’’لیکن یہ ایک عام چلن ہوتا جارہا ہے، خاص طور پر پاکستان کے بعض علاقوں میں یہ ظlم ہورہا ہے۔اس ظلم کے تدارک کیلئے کوئی آواز اٹھاتا ہے تو وہ بھی اس ظلم کا شکار ہو جاتا ہے۔….‘‘

’’ہم کہاں چلے گئے؟ ہم آپ ﷺ کے ارشادات سے کتنا دور چلے گئے؟ کہ آپ ﷺ تو فرما رہے ہیں کہ مومن مومن کا بھائی ہے، اس پر ظلم نہیں کرتا(جب کہ یہاں یہ صورتحال ہے۔)۔‘‘

’’ٹھیک ہے اگر کسی شخص نے کوئی گناہ کیا ہے کسی جرم کا انتخاب کیا ہے تو بے شک شریعت کے دائرے میں رہ کر، قانون کے دائرے میں رہ کر اس پر مقدّمہ چلا کر اس کو سزا دینے کا حق حاصل ہے، لیکن اچانک کوئی شخص کسی دوسرے سے کہہ دے کہ تم چور ہو اور چور ہونے کی وجہ سے ہم تمہارے ہاتھ کاٹیں گے یا کیونکہ تم چور ہو لہذا تمہیں گرفتار کریں گے، تو اس کا کوئی جواز نہ شریعت میں ہے نہ موجودہ قانون کے اندر ہے۔

انہوں نے کہاکہ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اتنا الجھ گیا ہے کہ یہ سمجھنا بھی آسان نہیں ہے کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر؟ کیونکہ ایسی ایسی تحریکیں ہمارے ملک میں چل گئی ہیں جو بعض اوقات اسلام کے نام پر اور بعض اوقات قومیت کے نام پر ملک کو ٹکڑے کرنا چاہتی ہیں اور ہمارے دشمنوں کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہیں۔


 

Post a Comment

Previous Post Next Post