بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5298 دن مکمل

 


کوئٹہ بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتال کیمپ کو 5298 دن ہوگئے۔

 اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بلوچ وطن پارٹی کے کنوینر  حیدر رئیسانی وڈھ شہر سے نظیر احمد رئیسانی شاہ فیصل رئیسانی اور پنجگور سے سنجر بلوچ نے کیمپ کر اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع  پر وائس  فار بلوچ مسنگ  وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ جابریت کئی عظیم سروں کو اپنے آگے سنجیدہ ریز کرنے کی سعی میں ناکام ہوکر انھیں تن سے جدا تو کر دیتا ہے۔  مگر ان سے سجدے کروانے میں ناکام رہ  جاتا ہے۔ آج ہزاروں بلوچوں نے سروں کی قربانی دینے ظلم جبر اور ہزاروں مشکلات و مصائب جھیلنے کے بعد فکری بالیدگی کی حدوں کو چھو کر بلوچ قومی بقاء کے ایک مظبوط ادارے کے طور پر سامنے آکر بین الاقوامی تنظیم کی حیثیت حاصل کرکے بلوچ سماج کی روح میں سرایت کر چکی ہے۔

 ماما قدیر بلوچ نے کہا ہےکہ سکیورٹی ایجنسیوں کے کالے کرتوتوں سے دنیا اب پوری طرح واقف ہوچکی ہے۔  آج دنیا انکی ایجنسیوں کو ایک ملک کے ذمہ داروں کی حیثیت سے نہیں ،بلکہ محکوم بلوچ قوم کی نسل کشی ڈیتھ اسکواڈ اور دنیا میں دہشتگردی کا بازار گرم کرنے والے دوسرے روپ کی طور پر جانتی ہے۔ بلوچ فرزندوں کی اغوا اور مسخ شدہ نعشیں پھینکنے میں ملوث ہونے سے اپنی ایجنسیوں کو بری الزمہ قرار دیکر انکے جرائم پر پردہ ڈھال کر عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔  مگر قابض ریاست کے وزیر اعظم نے بلوچستان میں اپنی ایجنسیوں کو بلوچ نسل کشی تل غارت گری چوری ڈکھیتی اور اغوا بھتہ خوری میں کھلی چوٹ دینے کا اعتراف کرکے یہ  عیاں کردی کہ بلوچ قوم پر ظلم جبر کے قہر ڈھانے میں کوئی ایک اشارہ ملوث نہیں ، بلکہ پوری کی پوری ریاستی مشینری سرگرم ہے۔ 

ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی اور بلوچ نسل کشی فورس ایف سی۔ سی ٹی ڈی۔ نے خصوصی سیل تشکیل دے کر بلوچ فرزندوں کی جبری اغوا مسخ شدہ نعشیں پھینکنے کی پالیسی میں مذید شدت لانے کے واضع اشارے دئے۔ نام نہاد بلوچستان حکومت نے بھی مقبوضہ بلوچستان میں امن و امان کی بحالی کے نام پر بلوچ کے خلاف بڑے پیمانے پر فضائی کاروائی کا اعلان کرکے وفاقی حکومت کی حکم کی بجا آوری کی قسم اٹھائی بولان سبی قلات ہوشاب کاروائیاں شروع کی۔۔۔

Post a Comment

Previous Post Next Post