سردار اخترجان اور پروفیسر منظور بلوچ کا گدان اسپیس پر ایک دوسرے پر تنقید

 


سردار اختر: کتابوں کا ڈھیر سر پے رکھ کہ بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا.

پروفیسر: دنیا میں جتنے بھی لیڈر تھے وہ سب مصنف تھے، صحافی تھے وہ فلسفہ جانتے تھے ماؤزےتنگ نے سینکڑوں کتابیں لکھیں تھی، وہ 20 صدی کا نہیں وہ 20 صدیوں کا تھا، مارکس پاگل نہیں تھا جو 15، 15 ، گھنٹے پڑتا تھا ۔

سردار: پروفیسر ہمیں پارلیمانی سیاست کرنے سے روکتا ہے، ہمیں منسٹر بننے سے روکتا ہے اور خود سرکاری ملازم ہو کہ ریاست کے مراعات حاصل کی ہے۔

پروفیسر: صباہ دشتیاری صاحب جس کو بی این پی اخباری بیانات میں کہتاتھا کہ یہ ہمیں غلط کہا ہے بعد میں صباہ کو ٹارگٹ کلنگ میں شہید کیاگیا، پروفیسر رزاق زہری صاحب بھی تو تنخواہ لیتا تھا لیکن انہوں نے کیسے اپنے ملازمت کو استعمال کیا ہم نے ایسے نوکر بھی دیکھے ہیں جو تنخواہ نہیں لیتے تھے وہ کروڑپتی بن گئے. 

سردار: ہمارے پاس اخبار نہیں ہمارے پاس اچھا لکھاری نہیں..... 

پروفیسر: مانتا ہوں ہمارے پاس جہاز نہیں ہے! جب نیپ کی حکومت تھوڑی گئی سردار عطااللہ لندن گئے اُس نے کہا اگر ہم جلاوطن نہیں ہوتے تو ضیالحق مجھے اور بابا خیربخش مری کو پھانسی دیتا وہ وہاں بی ایل او بنائ اور آزاد بلوچستان کے نام سے جریدہ بھی نکالا اُس وقت نا ہمارے پاس جہاز تھا نا اخبار لیکن انہوں نے کام کیا. 

سردار: تربت سے اسلام آباد لونگ مارچ میں ہمارے کارکن ہیں۔

پروفیسر: (کیونکہ بی این پی کا کوئی بندہ نہیں تھا بات کو نظرانداز کرتےہوے سوال کرتےہیں)  یہ کام جو ہمارے مائیں بہنیں کررہے ہے کیایہ ان کا کام ہے یا سیاسی پارٹیوں کا؟ کیا پارلیمانی پارٹی کا کام اب ٹھیکداری کیلئے دروازے توڑنا ہے؟؟

Post a Comment

Previous Post Next Post