غریدہ فاروقی ماہرنگ بلوچ سے سوالات پر تنقید کی زدمیں، ایسے انٹرویو کرنے والوں کو کیا صحافی کہا جانا چاہئے؟


اسلام آباد  نام نہاد صحافی  غریدہ فاروقی نے بلوچ لاپتہ افراد کے لانگ مارچ لیڈ کرنیوالی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے سوال کیا کہ کیا آپ دہشت گردوں کی مذمت کرتی ہیں؟اس پر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ پہلے یہ بتائیں کہ یہ مسئلہ کیسے شروع ہوا؟ قوت کا استعمال کس نے شروع کیا؟ عسکری تنظیمیں بنی کیسے؟ 71 میں کس نے بلوچستان پر چڑھائی کی؟ہمارے لوگوں کو کس نے اٹھایا؟

آپ فوج کی مذمت کریں  کیوں بلوچستان میں غیر اعلانیہ فوج کشی دہائیوں سے جاری ہے ؟ لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں قتل کرنے والی سی ٹی ڈی اور فوج کی مذمت کریں ؟ بالاچ مولابخش  جسے سی ٹی ڈی نے عدالت میں پیش کرنے کے بعد دون میں جعلی مقابلے میں قتل کیا ۔  جس کیلے بلوچ  یکجہتی کمیٹی کی حالیہ عوامی تحریک چل پڑی ۔مگر ان سوالات کے جوابات دیئے بغیر نام نہاد صحافی غریدہ نے بار بار فوجی فریق بن کر  پھر سوال کیا کہ آپ اگر مگر کے بغیر دہشت گردوں کی مذمت کرتی ہیں؟

مذکورہ ویڈیو شوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سیاسی سماجی ،صحافتی حلقوں نے  غریدہ کو آڑے ہاتھوں لیا جو سوشل میڈیا پر تنقید کی سخت زدمیں  ہیں ۔ 

معروف صحافی یوٹیوبر مطیع اللہ جان نے اپنے ایکس ہینڈل پر لکھا ہے کہ صحافی کو مظلوموں سے اس طرح بات نہیں کرنی چاہیے۔

  @GFarooqi  ایسے سوالات کو اقتدار میں رہنےوالوں کے سامنے رکھنا چاہیے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ  مجھے ایک صحافی کے طور پر شرم محسوس ہوئی کہ ایک مظلوم کو مجبور کر یں کہ وہ  اس ظلم کو دیکھ کر کچھ  مسلح تنظیموں کی  کاروائیوں کی مذمت کریں۔

  انھوں نے لکھا ہے کہ اس خاتون صحافی نے مبینہ طور پر ریاستی دہشت گردی کا شکار ہونے والی خاتون کی جان کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کی اور اسے کچھ غیر ریاستی دہشت گردوں کی مذمت کرنے پر مجبور کیا۔

  یہ انٹرویو مجھے ایک صحافی کی یاد دلاتا ہے جو بوسنیا کی مسلم خواتین پناہ گزینوں کے کیمپ میں سے گزر رہی تھی اور چیخ رہی تھی کہ "کوئی بھی زیادتی کا شکار ہو اور جو انگریزی بول سکتا ہو پلیز۔"  یہ صحافت کی ایک بدترین شکل ہے جو متاثرین کا سامنا کرتی ہے گویا وہ کوئی سرکاری اہلکار یا سیاست دان ہیں۔

سمیر جیئند نامی کالم نگار  نے ایکس پر لکھا ہے غریرہ فاروقی صحافت کی ضابطہ اخلاق سے نابلد ،اور فوجی لفافہ پر رپورٹنگ کرنے والی رپورٹر ہیں ان کی صحافت سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے ۔وہ زرد صحافت کی اعلی مثال خاتون ہیں جس کی صحافت  سے کوئی واسطہ نہیں نہ ان میں انسانیت ہے جو کسی مظلوم کی درد سمجھ سکیں  ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ہر انسان جو کندھے پر سر رکھتا ہو انسان نہیں کہلاتا ہے ۔ 

سوشل میڈیا پر  ایک اخبار نے لکھا ہے کہ 

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے غریدہ فاروقی کی بولتی بند کر دی،اور کہاکہ  ریاست جو ہمارے ساتھ کر رہی ہےاسکی مذمت کریں؟آرمی چیف سے اپیل نہیں کروں گی!ہمارا قتل بند کیا جائے بس۔

آندے خان نامی  سوشل میڈیا ایکٹویسٹ نے لکھاہے غریدہ فاروقی ‎@GFarooqi  صرف اور صرف پنجابی استعمار کی حمایت کرنے گئی تھیں سو انہوں نے کی، وہ آج سے نہیں اپنی کیریئر کے آغاز سے پنجابی استعمار کی ایجنٹ ہیں اور عسکری ٹاؤٹ ہیں۔ 


سلطان نامی شخص  نے ایک  فوجی مخبر  آفیسر کی  تصویر بھی شائع کی ہے اور کیپشن میں لکھا ہے 

،یہ رہا ایک مزدور۔  جو مزدور کی بھیس میں فوجی  ہے۔ 

ماسٹر جی نامی کسی صارف  نے ایکس  پر لکھا ہے 

ریاست بلوچستان کے مسئلے کو ٹھیک کرنا چاہتی ھے۔سبحان اللہ کیا پچھلے تین روز سے اسلام آباد میں جو کیا گیا۔وہ اس مسئلے کو ٹھیک کرنے کی کوششیں تھی؟

Post a Comment

Previous Post Next Post